جمعرات، 9 مارچ، 2023

بیساکھیوں کی ضرورت ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کی،چوروں کے علاوہ سب سےبات کروں گا،عمران خان

 

بیساکھیوں کی ضرورت ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کی،چوروں کے علاوہ سب سےبات کروں گا،عمران خان


’’اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں‘‘،اور ’’چوروں‘‘ کے علاوہ سب سے بات کرنے کو تیار ہیں۔یہ بات آج سابق وزیراعظم عمران خان نے بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئےکہی ان کا  کہنا تھا کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون اور آئین کے مطابق انتخابات ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس حوالے سے کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں لیکن انہیں ’’ بیساکھیوں ‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔عمران نے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں اسٹیبلشمنٹ سے بات کروں گا اگر وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں ایک سیاسی آدمی ہوں، میں چوروں کے علاوہ سب سے بات کروں گا،”  پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر یا وزیر اعظم شہباز شریف کو مذاکرات کے لیے بیٹھنے کی دعوت نہیں دی۔"ایک بیان گردش کر رہا ہے کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں ہے۔"عمران کا مزید کہنا تھا کہ جس سیاسی جماعت کو عوام کی حمایت حاصل ہو اسے بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

بی بی سی کی طرف سے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا فوجی کمان میں تبدیلی کے بعد ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بدل گیا ہے تو سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ "اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا۔"انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ کے دور میں بنائے گئے۔ "اس سے پہلے بزرگ لوگوں پر اس طرح کا حراستی تشدد کبھی نہیں کیا گیا تھا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے سوچا تھا کہ جب نیا آرمی چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی اورہماری مشکلات بڑھ گئی ہیں۔عمران خان کا یہ بیان پی ٹی آئی کے فواد چوہدری کی جانب سے واضح کیے جانے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے کبھی بھی سی او اے ایس منیر سے ملاقات کی کوئی درخواست نہیں کی اس حوالے سے قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دیا۔

یہ بیان سینئر صحافی کامران خان کی جانب سے جنرل منیر کے ملک کی تاجر برادری کو بتانے کے بارے میں ٹویٹ کرنے کے بعد جاری کیا گیا تھا کہ انہوں نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ذریعے عمران کو وزیراعظم سے ملاقات کے لیے پیغام بھیجا تھا جس پر پی ٹی آئی چیئرمین نے اتفاق نہیں کیا۔

تاہم کامران خان نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کی تھی جسے بعد میں انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیاسی عمل میں مداخلت کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ کے شروع میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ جنرل منیر سے "ملک کی بہتری کے لیے" بات کرنے کو تیار ہیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان کا "اسٹیبلشمنٹ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے"۔لاہور میں زمان پارک میں واقع اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں کے ساتھ ایک وسیع بحث میں انہوں نے سیاست، فوج کے ساتھ اپنے تعلقات، سابق آرمی چیف باجوہ سے مایوسی اور عدالتی سماعتوں کے لیے اسلام آباد نہ جانے کا انتخاب کیوں کیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ "اسٹیبلشمنٹ" سے بات کیوں نہیں کر رہے ہیں توعمران خان نے کہا تھا کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ سے کبھی جھگڑا نہیں ہوا، اور یہ جنرل باجوہ ہی تھے جنہوں نے "میری پیٹھ میں چھرا گھونپا"۔

انتخابات کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ کہ سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر نے اس حوالے سے اعلان بھی کیا ہے۔لیکن "پولیس اس وقت آتی ہے جب ہم انتخابی ریلی نکالتے ہیں،" انہوں نے لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کل کے پولیس کریک ڈاؤن کے واضح حوالے سے کہا جس میں ایک پارٹی کارکن مارا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ نگران حکومت کا کام انتخابات کرانا ہے۔ "وہ اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ اگر انتخابات ہی ہونے ہیں تو جلسے اور انتخابی مہم کے بغیر کیسے ہو سکتے ہیں؟عمران خان نے کہا کہ مخلوط حکومت پر مشتمل جماعتیں ’’خوفزدہ‘‘ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ چند ماہ کے دوران 37 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ان کی یعنی پی ڈی ایم کی عوام میں صرف اتنی ہی مقبولیت رہ گئی ہے کہ وہ سڑکوں پر بھی نہیں نکل سکتے۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انتخابات نہ ہوں عمران خان نے دعویٰ کیا کہ حکومت انتشار چاہتی ہے۔ ’’اگر ہم چاہتے تو رات گئے تک لڑائی جاری رہتی لیکن ہم انہیں افراتفری کا بہانہ بنا کر الیکشن ملتوی کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔‘‘

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ انتخابی نگراں ادارے نے عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے بعد دونوں صوبوں میں انتخابات کی تاریخیں دی تھیں لیکن حکومت انتخابات کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔حکومت انتخابات  نہ کروائے جانے کے لیے طرح طرح کے بہانے گھڑرہی ہے مجھے ڈر ہے کہ یہ حکومت کسی مشہور شخصیت کو اسی طرح قتل کر دیں گے جس طرح بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا۔بی بی سی کی طرف سے یہ پوچھے جانے پر کہ انتخابات نہ ہوئے تو کیا کریں گے؟ توعمران خان نے کہا کہ ایسا منظر نامہ توہین عدالت تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت انتخابات نہیں کراتی تو آئین اور قانون کا وجود ختم ہو جائے گا۔عمران خان نے کہا کہ ان کے مخالفین چاہتے ہیں کہ انہیں نااہل قرار دے کر جیل بھیج دیا جائے تاکہ مخلوط حکومت پر مشتمل جماعتیں انتخابات جیت سکیں۔میں نے 2018 کے انتخابات اس لیے جیتے کہ عوام اقتدار میں رہنے والی جماعتوں کے خلاف تھی، اب وہی جماعتیں مہنگائی بڑھنے کا سبب بن کررہ گئی ہیں اورعوام ان سے نالاں ہیں۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پی ٹی آئی انتخابات کرانا چاہتی ہے اورہم نے یہ  تجویزدی تھی  کہ تمام انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔اس سے ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ عوام کو انتخاب کرنے دیں جو وہ چاہتے ہیں۔ جو حکومت آئے گی وہ عوام کے مسائل حل کرے گی۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں