Header Ad

Home ad above featured post

منگل، 14 جنوری، 2025

کیا کسی فوجی افسر پر 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلا؟سپریم کورٹ کا استفسار

 

جسٹس مسرت نے سوال  کیا کہ اگر کسی فوجی کا چھاؤنی میں کسی شہری سے جھگڑا ہو جائے تو کیس کہاں جائے گا؟

سپریم کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 9 مئی 2023 کو کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں افراد کی دراندازی بلا شبہ "سیکیورٹی کی خلاف ورزی" تھی۔منگل کو اپنے ریمارکس میں جسٹس رضوی نے سوال کیا کہ کیا 9 مئی کو لوگ کور کمانڈر ہاؤس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے؟ لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس میں داخل ہونا بلاشبہ سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہے۔

یہ تبصرے اس وقت کیے گئے جب جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں عدالت کے آئینی بنچ نے 9 مئی کی بدامنی کے بعد فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو چیلنج کرنے والی انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی۔سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس میں لوگوں کا داخل ہونا سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کسی فوجی افسر پر 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلا؟

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی علی کیس میں جن افراد پر مقدمہ چلایا گیا وہ ریٹائرڈ ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی فوجی کا چھاؤنی میں کسی شہری سے جھگڑا ہو جائے تو کیس کہاں جائے گا؟ وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ تنازعات مختلف ہیں، فوجی ٹرائل کے معاملے کو حد سے زیادہ بڑھایا جا رہا ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل نے مزید کہا کہ امن کے دور میں بھی فوجی معاملات میں مداخلت کرنے والے شہریوں کو فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ اس کے پیچھے کوئی ماسٹر مائنڈ ضرور ہوگا، سازش کس نے کی؟خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ ماسٹر مائنڈ یا سازش کرنے والے کا ٹرائل بھی فوجی عدالتوں میں ہوگا، عام شہریوں کا ٹرائل اچانک شروع نہیں ہوا کیونکہ یہ قانون 1967 سے نافذ ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب دیا کہ "یاد رکھیں کہ ایف بی علی کیس سویلین مارشل لاء کے دور کا تھا، ذوالفقار علی بھٹو سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔"جسٹس حسن اظہر رضوی نے اہم سوال اٹھاتے ہوئے وزارت دفاع کے وکیل سے پوچھا کہ کیا 9 مئی کے واقعات میں ملوث کسی فوجی افسر کا ٹرائل ہوا؟ لوگ کور کمانڈر ہاؤس تک کیسے پہنچے؟ کیا کور کمانڈر اندر نہیں جا رہے تھے؟ گھر میں سیکورٹی کی خلاف ورزی ہے؟"

 

وزارت دفاع کے وکیل نے وضاحت کی کہ مظاہرین کے خلاف الزامات املاک کو نقصان پہنچانے سے متعلق تھے اور 9 مئی کے واقعے میں کسی فوجی افسر پر الزام نہیں لگایا گیا تھا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید استفسار کیا کہ کیا 9 مئی کو فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا تو کوئی مزاحمت کی گئی؟، وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ جانی نقصان سے بچنے کے لیے مکمل تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ فوجی کی رائفل چوری ہوئی تو مقدمہ کہاں درج ہوگا؟ وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ رائفل فوجیوں کا جنگی ہتھیار ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’اگر کوئی شہری مالی فائدے کے لیے چوری کرتا ہے، چاہے اس کا مقصد فوج کو غیر مسلح کرنا نہ ہو تو مقدمہ کہاں چلے گا؟ وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ حالات پر غور کیا جائے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں درج ہے کہ کون سے جرائم فوجی عدالت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے دوران کچھ مظاہرین کو معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل نے واضح کیا کہ لاعلمی کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں نہیں چلایا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت اگلے روز تک ملتوی کر دی۔گزشتہ روز جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت کئی جرائم درج ہیں لیکن تمام کا اطلاق صرف فوجی افسران پر ہوتا ہے۔جسٹس امین الدین نے خواجہ حارث کو منگل تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے مختصر وضاحت کی درخواست کی کہ کون سے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کیے گئے اور کیوں؟انہوں نے مزید کہا کہ بنچ سے کوئی بھی سوال بعد میں دیا جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Home Ad bottom