اتوار، 3 اکتوبر، 2021

ٹی ٹی پی نے پیٹھ میں چھُرا گھونپا یا ازلی دشمن کی چال

حکومت /ٹی ٹی پی مذاکرات

ٹی ٹی پی نے پیٹھ میں چھُرا گھونپا یا ازلی دشمن کی چال

ایک جانب وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے ٹی ٹی پی) تحریک طالبان پاکستان (کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں عام معافی کے اعلان نے پاکستان کے اندر موجود تمام تر لوگوں کی نیندیں اڑا کے رکھ دی رات گئے کچھ ایسا معاملہ ہوا ہے اور ایک ایسا حملہ ہوا ہے جس نے اس پورے پروسس کے اوپر اور اس پورے کے پورے ثالثی کا جو سلسلہ چل پڑا ہے افغان طالبان کی طرف سے اس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور رات گئے پاکستان کو کس طرح سے لہولہان کیا گیا ہے اور دشمن نے کس طرح سے ایک بہت بڑا حملہ کیا ہے  جوانوں کی شہادت کی اطلاع مل رہی ہے

 ایک سوال تو یہ ہےکہ اس میں اس سارے کے سارے معاملے کے اندرقیادت کے نتیجے میں جو کہ مذاکرات کرنے کے لئے اس وقت افغان طالبان کے پاس پہنچ چکی ہے کیا اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے یا پھر ازلی دشمن کی اس میں کوئی سازش ہے اور اس پورے کے پورے معاملے کے اندر پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ کیوں تیار ہوئی ہے کیوں کہ عمران خان نے آفر دی ہے کہ منسٹری ہم دینے کے لیے تیار ہے اور اگر ٹی ٹی پی یعنی کہ پاکستانی طالبان ہتھیار ڈالتے ہیں تو پاکستان آرمی انہیں کچھ نہیں کہے گی کیا طالبان ہتھیار ڈالیں گے اور اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کبھی بھی مکمل طور پر ہتھیار نہیں ڈالے گی تو اس سارے معاملے وجہ کیا ہے کیا یہ کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور کیا پاکستان کو ئی انتہائی قدم اٹھانے والا ہے جس سے پہلے پاکستان  جوازبنا رہا ہے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات پہلی مرتبہ نہیں ہے

مذاکرات  کا عمل معطل نہ ہونے کے حوالے سے ایک ڈیٹیل ہے جو میں آپ کے سامنے رکھوں گا پاکستان نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کتنی دفعہ اور کتنی دفعہ یہ مذاکرات ناکام ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہم امن کے لیے بات چیت پر یقین رکھتے ہیں کالعدم ٹی ٹی پی کے گروپ کے ساتھ امن کے لیے بات چیت کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت غیر مسلح کرنے کے لیے مذاکرات کر سکتی ہے اگر پاکستانی طالبان ہتھیار ڈال دیں تو معاف کر دیں گے انہوں نے کہا کہ میں معاملات کے آخری حل کے حق میں نہیں, مذاکرات کامیاب ہونگے یا نہیں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا یہ بات انہوں نے ٹی آر ٹی ورلڈ ٹی وی سے دیے گئے انٹرویو میں عمران نے کہا کہ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے کرم کی بھی کچھ گروہوں اور گروپوں سے رابطے میں ہے اور اس طرح عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم انھیں عام پاکستانی شہری بنانے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں اور  ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں طالبان کی  ثالثی اس حد تک ہے کہ مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں پاکستانی طالبان ہتھیار ڈال دیے تو انہیں معاف کردیں گے اور وہ عام شہری کی طرح رہ سکتے ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایک جانب حکومت سے بات چیت کر رہی ہے تو تنظیم حملے کیوں کر رہی ہے تو عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ حملوں کی ایک لہر تھی جو پاکستان کے اوپر مسلط کی اس وقت پاکستان کے اندر ایک بہت بےچینی پاءی جا رہی ہے

 بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مذاکرات کرنے چاہیے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام تر چیزیں ہونی چاہیے اور اگر وہ غیر مسلح ہو جاتے ہیں تو عام پاکستانی شہری بنا دینا چاہیے بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنے والے پاکستانکے معصوم بچوں کا خون بہانے والے انہیں صرف ختم کر دیا جا سکتا ہے ان کا سر کچلا جا سکتا ہے انہیں پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے ان سے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے اور یہ سودا ہوگا لاکھوں شہیدوں کا یہ فائدہ ہوگا ان تمام قربانیوں کا جو پاکستان نے دی ہے

بہت سی چیزیں جو اس وقت بہت سے لوگوں کے لئے جاننا ضروری ہے پاکستان نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کون کون سے اور کتنی مرتبہ مذاکرات ہوئے اور حکومتی سطح پر شدت پسندتنظیموں کے خلاف فتوحات کا سلسلہ جو ہے وہ نیا نہیں ہے بلکہ 2004 سے چلا رہا ہے جب حکومت نے اس وقت وزیرستان میں نیک محمد کے ساتھ مذاکرات کیے تھے لیکن چند مہینوں تک سماعت پر عملدرآمد ہوتا رہا لیکن پھر ختم ہوگیا اس کے بعد 2018 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود کے ساتھ امن معاہدہ ہوا تھا لیکن وہ بھی چند مہینوں بعد ختم ہو گیا اور  ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں اسی طرح ایک معاہدہ ہے 2008 میں اس وقت ہوا تھا جب علی محمد جان اورکزئی پختونخوا کے گورنر تھے اور ان کے دور میں پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں پاکستان کی فوج داخل ہوئی تھی اور اس معاملے کے بعد علی محمد جان نے استعفی دے دیا تھا اور کہا جاتا تھا کہ گورنر نے استعفے فوری طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے اندر جو وعدے کیے گئے تھے دونوں طرف سے وہ پورے نہیں ہو رہے تھے اور یوں وہ معاہدہ بھی زیادہ دیر تک نہیں چلا اس کے بعد 2009 میں سوات میں ایک معاہدہ اس وقت ہوا تھا جب عوامی نیشنل پارٹی کے صوبے میں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت سے کچھ عرصے تک چلتا رہا لیکن پارٹی جس کی قیادت اس وقت فضل اللہ کر رہے تھے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے سوات سے ضلع بونیر چلے گئے اور خود کو انہوں نے مزید مضبوط کرلیا اس وقت اے این پی نے ٹی ٹی پی کے لیے فرسٹ ٹائم دہشت گرد کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا تھا اسی طرح تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا لیکن بعد میں صوفی محمد نے پاکستان کے آئین کو پاکستان کے کانسٹیٹیوشن کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے عدالتی نظام کو نہیں مانتے ت اور یوں وہ معاہدہ ٹوٹ گیا

افغان طالبان مذاکرات کے سلسلے میں ایک اور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ افغان طالبان باقاعدہ طور پر ٹی ٹی پی کو ایک میز پر لا سکتے ہیں لیکن وہ کس حد تک شرائط منوا سکتے ہیں یہ مستقبل میں واضح ہو جائے گا  پاکستان کو انہوں نے کہا کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے

اطلاعات آ رہی ہیں ایک وزیرستان کے علاقے میں ٹی ٹی پی کا سیکیورٹی فورسز پر ایک اور حملہ سامنے آیا ہے اور گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں 5 اہلکار پاک فوج کے پانچ جوان دھرتی ماں پر قربان ہوئے انہوں نے جام شہادت نوش کیا ہے اور ایک ایسے وقت کے اندر جب یہ مذاکرات کی بات ہوئی اس دوران حملہ ہو جانا یہ ایک بہت بڑی بات ہے اور اس حملے کاافغان طالبان پر بھی پریشر ہے

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں