جمعرات، 7 اکتوبر، 2021

اٹک تک ہمارا علاقہ ہے،ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے،طالبان جنرل کا متنازعہ بیان

 اٹک تک ہمارا علاقہ ہے،ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے،طالبان جنرل کا متنازعہ بیان

ایک جانب تو افغان طالبان کی طرف پاکستان اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے  کی گئی امن کی کوششوں کو سراہا جا رہا ہے اور طالبان کی ٹاپ لیڈرشپ ہے خصوصا  طالبان ترجمان کی طرف سے پاکستان کی تعریف کی جا رہی ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کے کردار کو بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ جب سے افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک کچھ  ایسے واقعات ہوئے ہیں کچھ ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جو کچھ اور کہانیاں سناتے ہیں جو کہ ایک بالکل مختلف رخ دکھاتے ہیں اور طالبان  کی پاکستان کے ساتھ محبت پر بہت سے سوالات کھڑے کر دیتے ہیں-

اس دوران طالبان کمانڈر جنرل مبین کا ایک بیان بڑا وائرل ہوا ہے -کچھ دن پہلے اسی طالبان کمانڈر نے عمران خان کے کٹھ پتلی ہونے کے حوالے سے بیان دیا تھا اور اب ایک اورایسا متنازعہ بیان دیا ہے جس نے ایک نیا پنڈورا کھول دیا ہے - یہ بیان آنے والے دنوں میں معاملات کو انتہائی کشیدہ کر سکتا ہے جس میں اس نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بارڈر یا پھر جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے کوطالبان تسلیم نہیں کرتے اور اٹک سے لے کر افغانستان تک جوعلاقہ  ہے وہ افغانستان کا ہے اور اسے حاصل کیا جائے گا-

اب سب سے پہلےیہ سمجھنا ضروری ہے کہ ڈیورنڈ لائن کیا ہے ،اس کی تاریخ کیا ہے نام کیسے پڑا- اور کس طرح  یہ ایک لاوہ ہےجو پاکستان اور افغانستان کے درمیان پک رہا ہے اور کیا یہ لاوا پھٹنے کو تیار ہو چکا ہے -پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ ، نئے تعینات ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم اور نئےکور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس پر اس وقت پاکستان کی سول ملٹری لیڈرشپ توجہ مرکوز کیے ہوئےہے-

پاک افغان بارڈر کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے لیکن ابھی تک نہ تو اسے کسی افغان لیڈر شپ نے قبول کیا ہے نہ ہی اشرف غنی قبول کرتا تھا نہ ہی ہمارے ملک میں بیٹھے منظور پشتین جیسے لوگ اسے قبول کرتے ہیں بڑی دلچسپ بات ہے کہ افغان طالبان بھی اسےقبول نہیں کرتےہیں- پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈرپندرہ سو سے زائد میلوں پر محیط ہےجس پر پاکستان نے حال ہی سیکیورٹی باڑ بھی لگا دی ہے جس میں ہمارے بہت سے جوانوں نے اپنوں جانوں کا نذرانہ دے کر مکمل کیا ہے۔ سرکاری طور پر ابھی تک طالبان نےاسے قبول نہیں کیا ہے البتہ پاکستان کی اس وقت پوری کوشش ہوگی کہ طالبان اسے آفیشلی قبول کرنے کا اعلان کریں اور یہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہوگی

انیسویں صدی میں جب برٹش انڈیا میں آئے اور پورے برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کر لیا۔تو ایک طرف افغانستان تھا اور دوسری طرف روس تھا اب ہوا یہ کہ افغانستان بیچ میں پسا ہوا تھا روس کا اثر افغانستان میں بڑھتا گیا اور وہ تجارت کے ساتھ ساتھ ملڑی اثر کوافغانستان میں بڑھاتا گیاجبکہ یہاں پر بیٹھے برٹش اس کو بغور دیکھ رہے تھے اور کالونیاں بنانے والے ذہن کے مالک سر ہنری نیوریٹائن ڈیورنڈ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں روس کا اثر افغانستان پر اتنا نہ بڑھ جائے کہ وہ برصغیر پاک و ہند تک پہنچ جائے - اس لیے۱۸۹۳ء میں برٹش حکومت کی طرف سے سر ہنری نیوریٹائن ڈیورنڈ اور افغانستان کی طرف سے  امیرافغانستان عبدالرحمن کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جسے اب ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ جسے انہوں نے ایک بفرزون بنا دیا ،ایک لائن کھینچ دی اور طے پایا کہ یہ لائن درمیان میں رہے گی تاکہ دونوں جانب سے معاملات خراب نہ ہوں۔پھر ۱۹۴۷ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تو ظاہری بات ہے یہ ڈیورنڈ لائن پاکستان کو مل گئی کیونکہ انڈیا کا تو اس سے کوئی بارڈر نہیں ملتا تھا۔ اب افغانیوں کے ذہنوں میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ یہ معاہدہ تو برٹش حکومت اور امیر افغانستان کے درمیان تھا پاکستان کا تو اس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ اور اس معاہدے کی اب کوئی وقعت نہیں ہے۔ جبکہ انہیں یہ نہیں پتہ کہ جب تک نیا معاہدہ نہیں ہو جاتا تب تک پرانا معاہدہ برقرار رہتا ہے -البتہ پاکستان نے جو ابھی بارڈر پر باڑ لگائی ہے وہ بہت بڑی حقیقت ہے۔ پاکستان نے باڑ لگا کر اسے اب اس لائن کو قانونی بنا دیا-

اب جب سے افغانستان پر طالبان کی حکومت آئی ہے تب سے پاکستان پر حملے بڑھے ہیں یا پھر پاکستان میں جو ان کے بکھرے ہوئے گروہ ہیں وہ سرگرم ہوئے ہیں۔ طالبان کی طرف سے پاکستان پر کوئی حملہ نہیں ہوا اور وہ بار بار اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرواتے رہتے ہیں اور پاکستان اور عمران خان کی مدد اور دنیا میں ان کے حق میں آواز اٹھانے پر شکر گزار ہوتے رہتے ہیں-لیکن جس طرح غنی حکومت کا پاکستان مخالف بیانہ تھا اسی طرح طالبان میں بھی کچھ گروہ پاکستان مخالف بیانیہ رکھتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ  چمن بارڈر پرجب ٹرک سے پاکستانی پرچم اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی تو کس طرح طالبان نے اس پر فورا ایکشن لیا تھا ملزمان کو گرفتار کیا انہیں غیر مسلح کیا اورکورٹ مارشل کر کے انہیں سزا دی - مسلسل پاکستانی سفیر سے رابطے میں رہے اور ان سے معذرت کی اور اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ 

اب متنازعہ بیان کی طرف سے آتے ہیں جو جنرل مبین کی طرف سے سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کو ہم نہیں مانتے ہیں۔اور اٹک تک ہم افغانستان تصور کرتے ہیں۔اب طالبان کو اس کی یا تو مذمت کرنا ہوگی یا ہم یہ سمجھیں گے اس کے پیچھے طالبان کا کوئی گروہ شامل ہے۔لیکن ذرائع یہ کہتے ہیں کہ طالبان کا اس بیان سے کوئی لینا دینا نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں