ہفتہ، 7 جنوری، 2023

سیاست اسے کہتے ہیں ۔۔۔ پرویزالہٰی فارغ ۔۔۔ عمران خان کے دوٹوک اعلان سے سب پریشان

 

سیاست اسے کہتے ہیں ۔۔۔ پرویزالہٰی فارغ ۔۔۔ عمران خان کے دوٹوک اعلان سے سب پریشان

لگتا ہے کہ عمران خان اب سمجھتے ہیں کہ پرویزالہٰی اورق لیگ کے حوالے سے بہت مروت ،صبراوربرداشت کا مظاہرہ کرلیا اب انہوں نے اپنے لیے جو الگ راستہ چن لیا ہے وہ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ان کے بیانات بتارہے ہیں کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اورپرویزالہٰی جن سے ہدایات لے رہے ہیں پھر ان کی طرف چلے جائیں گے تو بہتر ہے عمران خان اپنا راستہ الگ لینا چاہتے ہیں ۔عمران خان نے کچھ  سینئرصحافیوں سے جو ملاقات کی اس میں بھی انہوں نے کہا کہ پرویزالہٰی ہمیں جنرل باجوہ کے اوپر تنقید سے نہیں روک سکتے ہیں ہماری اپنی سیاست ہے ہمارا اپنا راستہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اورچیز جو واضح نظر آرہی ہے کہ پرویزالہٰی کسی صورت میں اعتماد کا ووٹ ہی نہیں لینا چاہتے جبکہ عمران خان کہتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ لیا جائے چونکہ یہ معاملہ اب عدالت میں ہے اعتماد کا ووٹ لیتے ہی اسمبلی تحلیل کردی جائے لیکن پرویزالہٰی اس طرف جانا ہی نہیں چاہتے ۔پرویز الہٰی کے بیان کے مطابق اعتماد کا ووٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہےگورنر کا خط ہی غیرقانونی ہے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطلب گورنر کے خط کو تسلیم کرنا ہوگا۔

جب کہ عمران خان بھرپورمیٹنگزاورملاقاتیں کررہے ہیں اورممبران کو منا رہے ہیں کہ پرویزالہٰی کو اعتماد کا ووٹ دیا جائے۔ اب ان کو بھی نظرآرہا ہے کہ پرویزالہٰی کس طرف جا رہے ہیں ۔عمران خان اتنا بھی سادہ شخص نہیں ہے کہ انہیں اس گیم کا پتہ نہ چلے لہٰذا وہ یہ سمجھ رہے کہ پرویزالہٰی جتنی تاخیر کررہے ہیں اورچیزوں کو آگے لے جارہے ہیں اگروہ اس طرف نہیں آتے تو عمران خان کی نظر میں ایک ہی حل ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے الیکشن کی طرف جایا جائے اورپرویزالہٰی کسی بھی صورت الیکشن کی طرف نہیں جانا چاہ رہے ہیں اس لیے وہ تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔ آپ کو پرویزالہٰی ڈبل گیم کرتے ہوئے نظرآرہے ہونگے وہ عمران خان کی تعریفیں تو بہت  کریں گےلیکن گیم وہ اپنا ہی کھیل رہے ہیں۔ اب عمران خان نے موجودہ صورتحال کودیکھتے ہوئےدوسرا پلان بنا لیا ہے اورکہا ہے کہ اگر اعتماد کے معاملے میں تاخیرہوتی ہے توہم استعفٰے دے دیں گے اوراسمبلی سے باہرنکل آئیں گے۔یعنی پھردیکھتے ہیں پرویزالہٰی وزارتِ اعلٰی کس طرح کرتے ہیں۔ پرویزالہٰی نے ڈراتے ہوئے کہا کہ دیکھیں تحریک انصاف والوں کو ہوش کرنا چاہیے یہ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔پچیس مئی کو ان کی زبانیں باہرآگئی تھیں۔یعنی پرویزالہٰی ان پرطنز کررہے ہیں کہ اس وقت آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا اورآج میں بیٹھا ہوا ہوں اورآپ کو بچایا ہوا ہے۔

عمران خان کہتے ہیں ابھی بھی ہماری حکومت ہے تو ہم نے کیا کرلیا؟ ڈی پی او ہم بدل نہیں سکتے ،تفتیش ہم کرا نہیں سکتے جن پر ہم الزام لگا رہے ہیں ان کے خلاف ایف آئی آرہم درج کروا نہیں سکتے تو ایسی حکومت میں رہنے کا کیا فائدہ ؟ جہاں پر ملک کا سابق وزیراعظم اورسب سے بڑی پارٹی کا چیئرمین بھی انصاف نہ لے سکے تو ایسی حکومت کا کیا کرناہے ۔اب تحریک انصاف کے بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ق لیگ ان کے لیے ایک بوجھ ہےیہ اسٹیٹس کو کا حصہ ہے اوران کو ہم کب تک آگے لے کرجائیں گے ان کی حرص کی حد بڑھتی ہی جارہی ہے اس نے اب سات شہروں کی ۴۰ سیٹیں بھی مانگ لی ہیں کہ الیکشن میں ان پر ق لیگ کے امیدوارکھڑے ہونگے اورپی ٹی آئی اپنا کوئی امیدوارکھڑانہیں کرے گی بلکہ ق لیگ کے امیدوارکی مکمل حمایت کی جائے۔بات صرف یہاں تک نہیں رکی بلکہ پرویز الہٰی نے توآئندہ کے لیے وزارت ِاعلٰی کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ اسی لیے یہ سب دیکھتے ہوئے عمران خان نے بڑے فیصلے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے کچھ قریبی لوگوں سے کہا ہے کہ ہم پرویزالہٰی پرکسی صورت میں اعتماد نہیں کرسکتے اورپرویزالہٰی کو یہ اچھی طرح پتہ ہے کہ اس وقت عمران خان مقبولیت کی بلندیوں پرہیں اسی طرح شیخ رشید بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اگرکھمبے کو بھی ٹکٹ دے گا تووہ بھی جیت جائے گا۔

عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلٰی پنجاب کے اعتماد کے ووٹ میں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نظرنہیں آرہی ہےلیکن پھربھی عمران خان اسی تگ ودومیں لگے ہوئے کہ کسی طرح تمام ممبران پرویزالہٰی پر اعتماد کا اظہارکریں۔جماعت وحدت المسلمین کی خاتون رکن ایم پی اے پرویزالہٰی کوووٹ ہی نہیں دینا چاہ رہی ان کے اپنے تحفظات ہونگے لیکن عمران خان ان کے سربراہ سے میٹنگ کرتے ہیں تو وہ بھی کہتے ہیں کہ اعتماد کے ووٹ کے لیے عمران خان جہاں کہیں گے وہیں ہماراووٹ ہوگا۔

عمران خان مجبوری میں یہ سارے معاملات چلارہے تھے لیکن اب لگتا ہے کہ ان کی بھی بس ہوگئی ہے۔سنو ٹی وی کے حوالے سے ایک خبرسامنے آئی ہے کہ عمران خان نے کہا کہ پرویزالہٰی اعتبارکے قابل نہیں،سیاسی فائدے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اب اگرعمران خان یہ جارحانہ قدم اٹھاتے ہیں تو پرویزالہٰی کو بھی لگ پتہ جائے گا۔پرویزالہٰی تو کہتے تھے کہ مجھے خودنہیں معلوم کیسے مجھے وزیراعلٰی بناکربٹھا دیا اب جس طرح بنا کربٹھایا تھا تو انہیں معلوم نہیں ہوسکا تھا اب پی ٹی آئی ان کو اس منصب سے اتارے گی تو پھربھی انہوں معلوم نہیں ہوگا کیونکہ انصاف کی بات کی جائے تو وزارت اعلٰی کے منصب پربیٹھا  ان کا حق بھی نہیں تھا۔ حرص کی کوئی حد ہوتی ہے اب تو حرص بھی پرویزالہٰی کے پاس آکربیچاری شرماجاتی ہوگی۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں