ہفتہ، 11 فروری، 2023

پنجاب میں الیکشن: قانون نافذکرنیوالوں اورقانون شکنوں کے درمیان جنگ،پی ٹی آئی کی وارننگ

 

پنجاب میں الیکشن: قانون نافذکرنیوالوں اورقانون شکنوں کے درمیان جنگ،پی ٹی آئی کی وارننگ


 

لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان کی 12 کروڑ آبادی والے صوبہ پنجاب میں 90 دن کے اندر آئین کے مطابق عام انتخابات کروانے کا حکم جاری توکر دیا گیا ہے لیکن اب جوابی واربھی تیار کر لیا گیا ہےاور الیکشن نہ کروانے کے لیےآخری حربہ بھی میدان میں لانچ کر دیا گیا ہے اس حوالے سےعمران خان نے باز رہنے کی وارننگ جاری کر دی ہے۔اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون اورپی ڈی ایم کی جماعتیں کیوں انتہائی مطمئن نظر آرہی ہے اور وہ کیوں اس سارے معاملے کو معمولی سمجھ رہی ہیں انہیں کس پر اعتبار ہے انہیں کس نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ہم نے آپ کو کہہ دیا کہ الیکشن نہیں ہونے تو نہیں ہونے اب اس کے لیےجوحربہ اپنایا جائے گا وہ حربہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے پی ٹی آئی بھی زمان پارک میں سر جوڑ کر بیٹھ چکی ہے جس کے لیےمنصوبہ بنالیا گیا ہے۔عمران خان کے آگے بڑھنے کا کونسا راستہ ہوگا  ابھی جدوجہد ختم نہیں ہوگی کیونکہ پورا نظام عمران خان کے خلاف ہے ساری سیاسی جماعتیں، طاقتور، پورے کا پورا نظام اورسارے کے سارے مافیاز اس وقت عمران خان کے خلاف ہے پھراس کے بعد عمران خان کے پاس آپشنزظاہری بات ہے محدود  ہو جاتے ہیں عمران خان کو کارنر کیا جاتا ہے عمران خان کو دیوار سے لگایا جاتا ہے عمران خان کے قریبی ساتھیوں کو ابھی بھی سیاسی شکارکیا جارہا ہے کسی بھی لمحے عمران خان کی اپنی گرفتاری ڈالی جاسکتی ہے مزید کیسزبنائے جا رہے ہیں ، نا اہلی کےکیسزچل رہے ہیں کہیں پہ فارن فنڈنگ تو کہیں پہ توشہ خانہ اور اب تومبینہ بیٹی کےکیس کو اوپن کرکے گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا یہ ہم سب کو پتہ ہے ۔

 لاہور ہائی کورٹ نے کل جو تاریخی فیصلہ دیا ایک جانب تواس فیصلے نےآئینی بالادستی میں بڑا اہم کردار ادا کیا اس کے ساتھ ساتھ نظریہ ضرورت کو بھی دفن کر دیا گیا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا ۔ الیکشن کے حوالے سے ایک نیا بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں غیر آئینی طریقے سے عدالتوں نے مداخلت کر دیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے الیکشن کمیشن کا کوئی اختیارسلب نہیں کیا گیا۔  الیکشن کمیشن کاتوصرف کام ہی الیکشن کروانا ہے اس ہرکیسے قدغن لگ گئی بلکہ اس فیصلے سے تو الیکشن کمیشن کے اختیارات کو مزید مضبوط کیا گیا ہے تاکہ کل مستقبل میں بھی اگر کوئی اپنی ذمہ داری نہ نبھائے جیسے گورنرپنجاب نے کیا ہے تو ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیارہے کہ وہ اپنا آئینی کردارنبھاتے ہوئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے۔ اب اس کردارکی ذمہ داری عدالت نے الیکشن کمیشن کو دی ہےجس سے وہ اب انکارکرنہیں سکتا ہے۔

لاہورہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نون لیگ بڑی مطمئن نظر آرہی ہے  اور نون لیگ بڑی ہی کلیئر ہے کہ جنہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن نہیں ہونے دینے  وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود بھی الیکشن نہیں ہونے دیں گے اس بات کا نون لیگ کو یقین اورمکمل اعتماد ھے ۔اب اس الیکشن کوروکنے کے لیے جو دلیل بنائی جا رہی ہے اس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کےاندر بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا اس فیصلےکو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا اوربلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے جس کی وجہ سےکھلم کھلا توہین عدالت ہوئی اوراس کے بعد خبر آئی کہ جج صاحب ہی چھٹی پر چلے گئے ہیں نظام جو ہے وہ اتنا ڈھیر چکا ہے اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں ہمارا سارا نظام اس قدربے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے کہ طاقتوروں کے سامنے قانون نام کی کوئی چیزمانع نہیں ہے۔

اب اس حکومت کے پاس الیکشن نہ کروانے کی دووجوہات ہیں ایک ایک توسیکیورٹی کو ایشو بنایا جاسکتا ہےدوسرامعاشی ایمرجنسی لگائی جاسکتی ہے یہ کہتے ہیں کہ ملک میں سکیورٹی کی ابترصورتحال ہے صرف پی ایس ایل ہوسکتا ہے لیکن الیکشن نہیں ہو سکتے  اسی طرح ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پرپہنچ چکی ہےاوراس صورتحال میں کابینہ کی تعداد میں اضافہ تو کیا جاسکتا ہے اورملک کو لوٹ کر اپنی تجوریاں توبھری جاسکتی ہیں لیکن الیکشن کا انعقاد بڑی مشکل بات ہے جس پر عمل کرنا فی الحال ناممکن ہے۔تحریک انصاف کی طرف ایک بڑی دلچسپ پیشکش سامنے آئی ہے کہ اگرریاست کے پاس الیکشن کروانے کے  پیسے نہیں ہے توعمران خان خود ہی یہ خرچہ برداشت کرلے اورٹیلی تھون کرکے الیکشن کا خرچہ اکٹھا کرلے گا لیکن آپ قانون اورآئین کے مطابق الیکشن کروائیں ۔

اب حکومت کے پاس ایک ہی کارڈہے اوروہ اسے استعمال کرنے کے بارے سوچ رہی ہے اوروہ کارڈ معاشی ایمرجنسی کا ہے یہ حکومت پی ڈی ایم کی حکومت کو دوام دینے کے لیے معاشی ایمرجنسی لگا سکتی ہے اورالیکشن کومزید ایک سال کے لیے ملتوی کرسکتی ہے اس بارے میں پی ٹی آئی نے بھی پی ڈی ایم اورطاقتورحلقوں کو ایسا کرنے سے بازرہنے کی تلقین کی ہے کیونکہ صرف پی ڈی ایم کی حکومت کو دوام دینے کے لیے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کو بھی خراب کرنے کا پلان بنارہے ہیں جبکہ عمران خان نے بھی جوابی وارکے لیے اپنی تحریک "جیل بھروتحریک" کومزید تیزکرنے کا فیصلہ کیا ہے اگرالیکشن کمیشن لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں مانتا تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ مداخلت کرکے آئین اورقانون کی بالادستی کی حفاظت کرے اب دیکھیں قانون جیتتا ہے یا قانون کے ساتھ کھلواڑکرنے والے فاتح قرارپاتے ہیں آنے والا وقت فیصلہ کرے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں