جمعرات، 9 فروری، 2023

الیکشن کے حوالے سےعدالت بھی میدان میں آگئی،صدرکا آئینی اختیاراستعمال کرنے کا فیصلہ

 

الیکشن کے حوالے سےعدالت بھی میدان میں آگئی،صدرکا آئینی اختیاراستعمال کرنے کا فیصلہ



آج الیکشن کے حوالے سے کچھ خوشخبریاں ہیں چونکہ رات کو فوج نے کہہ دیا تھا کہ ہم نفری نہیں دیں گےاورحکومت نے کہہ دیا کہ ہم فنڈز نہیں دیں گے جبکہ لاہورہائی کورٹ نے کہہ دیا کہ ہم عملہ نہیں دیں گے لیکن آج لاہورہائی کورٹ کوبھی بتادیا گیا ہے کہ اگرالیکشن کمیشن اورگورنرنے الیکشن کی تاریخ نہ دی تو صدراپنا آئینی اورقانونی اختیارکا استعمال کرکے الیکشن کا اعلان کریں گے۔لاہورہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے گورنر سے آج الیکشن کے حوالے سے جواب مانگا ہوا تھا گورنرنے جواب جمع کروا دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ میں نے اسمبلی تحلیل ہی نہیں کی اس لیے میں الیکشن کے تاریخ دینے کا پابند نہیں ہوں اورمیں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن کروانے سے روکا بھی نہیں ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ گورنر نے دینی ہے۔وفاقی حکومت کے وکیل کی دیدہ دلیری دیکھیں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا حکم جس پر عمل کرنا مشکل ہوجائے تو پھرکیا کریں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ ارہوں روپےاگر لگ جائیں توان کا پھرکیا ہوگا۔پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفرنےعدالت کے روبرو کہا کہ اگرگورنراورالیکشن کمیشن تاریخ نہ دیں توصدرالیکشن کمیشن کی تاریخ دے سکتا ہے جس پر جسٹس جواد حسن نے پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھا کہ آپ قابل عمل حکم کیا چاہ رہے ہیں۔اس پربیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن ۱۳اپریل سے پہلے ہونے چاہیئں سوال تاریخ کا ہے اب گورنریا الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ دیں یہ نہ دیں ۔اس پرگورنراورالیکشن کمیشن نےعدالت کو ۱۳ فروری تک مزید مہلت مانگی جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو کل تک کی مہلت ہے۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ میں آج بھی بیٹھا ہوں اورکل بھی بیٹھوں گا آپ کو کل تک ہرصورت جواب جمع کروانا ہے۔

اب اصل بات کیا ہے جو اب ان کے کانوں سے دھواں نکل رہا ہے اصل بات یہ ہے کہ لاہورہائی کورٹ نے کہا ہے  کہ عدالت 13 فروری رات 12 بجے تک پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے درخواست کے اوپر فیصلہ سنا دے گی عدالت نے کہا کہ ہم نے ٹائم کوبھی دیکھنا ہےکیونکہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد کا ٹائم ۱۳ اپریل تک ہے۔ اس میں ٹائم کی بڑی اہمیت ہے تو لاہورہائی کورٹ کل گورنر اورالیکشن کمیشن سے کل جواب لے گی۔

اب یہاں پر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سکندر سلطان راجہ  کی سپریم کورٹ کو دی جانے والی زبان ان کے گلے پڑنے والی ہے وہ کیسے الیکشن سے بھاگ سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا جب عمران خان  نے اسمبلی تحلیل کی تھی اور اسپیکر قاسم سوری نے رولنگ دی تھی تو وہ رولنگ چیلنج ہوئی تھی جس دن فیصلہ آیا تھا کہ آپ اتنی دیر میں دوبارہ سے وہ کروائیں  تو اس دن سپریم کورٹ میں سیکرٹری الیکشن کمیشن آئے تھے اور ان کو باقاعدہ طورپربلایا گیا تھا اور اس سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کب تک الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں اپریل 2022 کے اندر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سامنے خود کہا تھا ہم نومبر2022 تک  ملک میں الیکشن کے لئے تیار ہوں گے ۔چیف جسٹس  نے آج اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اسپیکر رولنگ کے اندر یہ کہا تھا کہ ہم نومبر2022 کے اندر عام انتخابات کے لیے تیار ہوں گے اب لاہورہائی کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ 13فروری تک فیصلہ سنائیں گے اور دوسری جانب سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ آپ نے خود کہا کہ نومبر 2022 تک الیکشن کروادیں گے اب سپریم کورٹ کے سامنے الیکشن کمیشن  کی دی ہوئی زبان اس کے گلے پڑنے والی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ   سیاسی بحران کا حل عوام کے فیصلے کے اندرہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں