اتوار، 24 اکتوبر، 2021

111ارب روپے سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا منصوبہ شروع

 

111ارب روپے سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا منصوبہ شروع

وفاقی وزیر توانائی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک کے اندر بجلی کی ترسیل پر 111 ارب روپے انویسٹ کرنے جا رہے ہیں اور آپ جان لیں گے کہ ان پیسوں سے سسٹم  میں کتنی زیادہ بجلی شامل کی جاسکے گی ۔یہاں یہ ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ کی دو تین وجوہات ہیں ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ بجلی کی ترسیل کے لیےہمارا سسٹم اس قابل نہیں ہے کہ ہماری ضرورت کی بجلی مہیا کر سکے بجلی پیدا کرنے کے لیے جو پاور پلانٹس چاہیے تھے وہ تولگا دیے گئے لیکن بجلی کی ترسیل کے لیے جو گریڈ اسٹیشن میں ٹرانسفارمربڑے ہیوی ڈیوٹی  اور گلی محلوں کے ٹرانسفارمر اپ گریڈنہیں کیے گئے۔ اب اس سال2021 ء میں پاکستان میں بجلی  پیدا کرنے کی صلاحیت 37000 میگاواٹ ہے لیکن بحلی ترسیل کرنے کی صلاحیت 24284 میگاواٹ ہے اس طرح ہم ابھی بھی اپنی صلاحیت سے13 ہزار کم بجلی ترسیل کرپا رہے ہیں ۔ لیکن ہم اس 13ہزاربجلی کا کرایہ ادا کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے کل ان کمپنیوں سے کمیشن لے کران کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔

 اس کے ساتھ ساتھ خوشخبری کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پروڈکشن بڑھ رہی ہے ستمبر کے مہینے میں گزشتہ سال کی نسبت ہم نے 8 فیصد زیادہ یعنی 1289 میگاواٹ بجلی پیدا کی اور اسے استعمال بھی کیا۔ یہاں یہ معلومات بھی آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں کہ  صرف پاکستان اور انڈیا میں ہی بجلی مہنگی نہیں ہو رہی بلکہ جرمنی میں بھی اس سال گزشتہ سال کی نسبت 23 فیصد بجلی مہنگی ہوگئی ہے اور گیس وہاں پر 59 فیصد مہنگی ہوچکی ہے۔ اس کو بھی ڈسکس کریں گے لیکن پہلےچلتے ہیں اس بیان کی طرف جو حماد اظہر نے ٹویٹ کیا کہ اگلے تین سال کےدوران یعنی موجود سال اور اس کے بعدجو دوسال آرہے ہیں  111 ارب روپے سے پاکستان کی ٹرانسمشنز لائنز،گریڈ اسٹیشنزاور ٹرانسفارمرزتمام کو اپ گریڈ کیا جائے گا  اور یاد رہے کہ2018ء میں جب نون لیگ کی حکومت تھی اس وقت پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تقریبا 33 ہزار میگا واٹ تھی لیکن پاکستان کے سسٹم میں جوبجلی ترسیل ہوسکتی تھی وہ صرف  20811 میگاواٹ تھی یعنی ہم اپنی صلاحیت سے 13ہزار میگا واٹ کم بجلی ترسیل کرپاتے تھے تو گزشتہ تین سالوں کے دوران  موجود حکومت نے 3500 میگا واٹ بجلی  کا اضافہ کیا ہے اور جولائی میں ہمارے سسٹم میں 24284 میگاواٹ بجلی ترسیل کی گئی ہے ۔اب جو ہمارے ٹرانسمیشن سسٹم میں 111ارب کی انویسٹمنٹ شروع کی گئی ہے اس سے اگلے سال گرمی تک ہمارا یہ سسٹم 25000 سے26000 میگاواٹ تک بجلی کی ترسیل کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔ 2023ء تک سسٹم کوبجلی ترسیل کرنے کاٹارگٹ 28750 ہزار میگاواٹ رکھا گیا ہےاور 2024ء میں یہ سسٹم 31500میگاواٹ بجلی ترسیل کر پائے گا۔ گزشتہ سال بھی لاہور شہرمیں ضرورت سے 1300 میگا واٹ کم  بجلی مہیا کی جاتی رہی کیوں کہ لیسکو کا سسٹم ضرورت کے مطابق بجلی مہیا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ہماری گلی محلوں کے ٹرانسفارمر سے لے کر ہمارے گریڈ سٹیشن میں لگے ٹرانسفارمرز تک تمام آلات پرانے ہو چکے ہیں ان کی صلاحیت کم ہے ان  تمام کو ریگولیٹ کرنے اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں پر ایک خوشخبری کی بات ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت ستمبر2021ء میں 8 فیصد زیادہ بجلی پیدا ہوئی ۔ گزشتہ سال 18200 میگاواٹ بجلی پیدا ہو ئی تھی جبکہ اس سال 19489میگاواٹ یعنی 1289 میگاواٹ زیادہ بجلی پیدا کی گئی ہے ۔اب دیکھیں کہ بجلی مہنگی بھی ہورہی ہے اس کی ایک وجہ تو ہے کہ ہمارے ہاں امپورٹڈ فیول گیسز زیادہ ہیں  اوردوسراعالمی مارکیٹ کے اندر تیل بھی 100 فیصد مہنگا ہو چکا ہے اور گیس 90 فیصد مہنگی ہوگئی ہے۔ اب پاکستان میں جو سستی بجلی بنتی ہے یعنی پن بجلی وہ گزشتہ ماہ صرف 36 فیصد بنی  ہے۔ جبکہ کوئلے اور امپورٹڈ گیس سے جو بجلی بنائی گئی ہے وہ بھی 36 فیصد ہے۔اسی وجہ سے پاکستان میں زیادہ تیزی سے بجلی مہنگی ہورہی ہے۔ اب اس 36 فیصد مہنگی بجلی میں 19 فیصد اس مہنگی ایل این جی کا ہے جس سے اب 24روپے یونٹ والی بجلی حاصل کی جارہی ہے۔اورایل این جی کے تمام پلانٹس شہبازشریف کی مرہون منت ہیں انہی کے دور میں لگائے گئے۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ جو 17 فیصد کوئلے سے بجلی پیدا کی گئی ہے اس کے تمام کے تمام پلانٹس بھی ن لیگ کے دور میں ہی پاکستان کے اندر لگنا شروع ہوئے۔ کچھ ان کے دور میں مکمل ہوئے کچھ اب ہورہے ہیں۔ تو یہ جو 36 فیصد امپورٹڈ فیول کے اوپر ہماری بجلی ہے یہ ہمیں بہت نقصان پہنچا رہی ہے اس وقت اگر ہمارے حکمران عقلمندی کرتے اور امپورٹڈ فیول یا کوئلے کی بجائے لوکل کوئلے پرلگاتے یا اس کے علاوہ سولر، ونڈ یا نیوکلیئر کے اوپرفوکس کرتے تو پاکستان میں جو ہمیں مزید نرخ بڑھانے پڑ رہے ہیں وہ نہ بڑھانے پڑتے۔ اب اس وقت جو بھی حکومت ہوتی وہ بجلی کے نرخ بڑھائے بغیراپنا خسارہ پورا نہیں کر سکتی۔ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔

اب یہاں پر دیکھیے بجلی صرف پاکستان میں مہنگی نہیں ہورہی بلکہ جرمنی میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال 23 فیصد بجلی جبکہ گیس 59 فیصد مہنگی ہوچکی ہے۔ گیس اور تیل کے عالمی مافیاکوگزشتہ سال جب کرونا عروج پر تھا اورلاک ڈائون تھا کافی نقصان ہوا کیونکہ تیل مفت میں بکتارہا۔اب اس خسارے کو پوراکرنے کے لیے انہوں نے تیل کی قیمتیں بڑھا دی ہیں اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں۔یورپ اور ایشیاء میں سردی کا موسم آ رہا ہے۔گیس مافیا نے گیس روک کے رکھی ہوئی ہے تاکہ سخت سردی میں جب لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہوگی اس وقت یہ بیچیں گے۔ اب دعا کریں کہ سردی اتنی نہ پڑے جتنی کہ یہ توقع کر رہے ہیں تاکہ انہیں سستے داموں گیس بیچنی پڑے اور پاکستان کو بھی سستے نرخوں پر سستی گیس اور بجلی مل سکے۔کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قدرت پر منحصر ہوتی ہیں اورکچھ حکومتوں کی نااہلی ہیں جتنا حکومت کی نااہلی ہے اس کو اتنا ہی اس کاکریڈٹ دینا چاہیے اور جو قدرت کررہی ہے وہ ہمیں کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔ اگرمودی ہم سے   دس گناہ بڑی اکانومی کے ساتھ  انڈیا کے اندر پٹرول ڈیزل کنٹرول نہیں کر پا رہا حالانکہ وہاں پر میڈیا میں مہنگائی کا شور مچا ہوا ہے اور لوگ سراپا احتجاج ہیں  تو ہماری ان سے 10گنا چھوٹی معیشیت ہےلیکن اپنی طرف سے حکومت لولی لنگڑی کوشش کر رہی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں