جمعہ، 29 اکتوبر، 2021

ریاست کا اپنے شہریوں پر گولی چلانے سے اجتناب،وزیراعظم کاعنقریب قوم سے خطاب متوقع

 ریاست کا اپنے شہریوں پر گولی چلانے سے اجتناب،وزیراعظم کاعنقریب قوم سے خطاب متوقع


آج وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جو کہ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا۔اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید،وزیرداخلہ شیخ رشید،وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری،وزیرمذہبی امورنورالحق قادری،نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرمعید یوسف،آرمی چیف اور بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان اور سیکرٹریز اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹرِی اعظم خان بھی موجود تھے۔شیخ رشید نے اجلاس کے بعد باہر آکر کہا کہ مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جائیں گےجبکہ اس سے پہلے فواد چوہدری نے کہا کہ ہم ان سے کوئی مذاکرات نہیں کرینگے ان سے کوئی بات نہیں ہوگی ان کی باتیں جلتی پرتیل ڈالنے کے مترادف تھیں۔ہر پاکستانی متفکر اور خوفزدہ تھا اور دعا کررہا تھا کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوجائے۔ کیوںکہ ہلاکتیں چاہے ٹی ایل پی کے کارکنان کی ہوں یا سیکیورٹی اداروں کے ملازمین کی دونوں طرف سے نقصان پاکستانیوں کا ہی ہے۔

اب اجلاس کی اصل کہانی کی طرف آتے ہیں اجلاس میں سیکیورٹی اداروں نے اس بات پر زور دیا کہ گولی کوئی بھی چلائے چاہے وہ فوج ہو یا پولیس اپنی عوام پر گولی چلانے کے نتائج وہ بڑے بھیانک ہوں گے جس سے قوم تقسیم ہوجائے گی۔اور شاید یہی دشمن چاہتا ہے۔اس لیے گولی چلانے سے پرہیز کرنا چاہیےاور بات چیت سے معاملہ حل کرنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ معاہدہ کیونکہ ٹی ایل پی سےسول حکومت نے کیا تھایعنی عمران خان کی حکومت نے کیا تھا اگر آپ کو کسی بات پر اعتراض ہے یا اس میں آپ کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو ان سے آپ گفتگو کریں۔اجلاس میں باقاعدہ سلائیڈز چلا کر پریزینٹیشن دی گئی جس میں بتایا گیا کہ ٹی ایل پی کے کارکنان کو لاہور میں نہیں روکا جاسکا ،گوجرانوالہ میں ان کونہیں روکا جاسکا وہ بڑھتے چلے آرہے ہیں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔تو ایسے حالات میں اگر طاقت کا استعمال کریں گے تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے اور صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔اگر آپ چند لوگوں کو گولی ماربھی دیں گے تو کیا یہ لوگ واپس چلے جائیں گے کیا یہ آگ پاکستان کے ہر گلی کوچے میں نہیں پھیل جائے گی۔تو اس لیے اس معاملے کو ہوشمندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔معید یوسف اور فواد چوہدری جیسے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب ریاست کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے یہ دہشتگرد تنظیم ہے اس سے دہشتگردوں جیسا سلوک کیا جائے۔ریاست سے مراد فوج اور اسٹیبلشمنٹ ہے یہ سیاسی حکومت ہے۔فواد چوہدری نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں  کہا تھا کہ اس میں فوج بھی شامل ہے کہ ان کو دہشتگرد سمجھا جائےاور کالعدم تنظیم کے طور پر ان سے سلوک کیا جائےکہ جبکہ ریاست تو یہ کہہ رہی ہے کہ معاملات کو بات چیت سے حل کیا جائے گولی نہیں چلائیں گے۔

 شیخ رشید اور نوالحق قادری ٹی ایل پی سے آج یا کل مذاکرات کریں گے۔دوسروں لفظوں میں ریاست نے گولی چلانے سے منع کیا ہے کیونکہ اپنے ہی لوگوں پر گولی نہیں چلائی جا سکتی اس سے نقصان ہو گا یہی آج کے اجلاس کا سب سے بڑا میسج تھا۔گو ریاست بہت طاقتور ہوتی ہے وہ شاید ان لوگوں پر قابو پا بھی لے لیکن اس کے نتائج جو ہونگے وہ تباہ کن ہوں گے۔مذاکرات کرنے میں ہی عمران خان حکومت کا بھلا ہے اور یہ اچھی بات ہے۔ بلکہ ان کے لیے سیاسی فائدے کی بات ہے۔نورالحق قادری اور شیخ رشید سمیت اکثریت نے معاملے کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دیا جس کی وجہ سے عمران خان کے پاس اسے ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔اب وزیراعظم پاکستان کل یا پرسوں قوم سے خطاب کریں گے۔ اور یہ ایک اچھی بات ہے کہ ریاست پاکستان اپنی عوام پر گولی چلانے کے حق میں نہیں ہے۔

ادھرٹی ایل پی کا جلوس وزیرآباد کے قریب پہنچ چکا ہے ان کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے کئی کلومیٹر تک لوگ ہی لوگ ہیں۔ابھی تک تو امن و امان ہے۔رینجرز بھی موجود ہے اگر بیچ میں کسی شرپسند نے گھس کر معاملے کو خراب نہ کیا تو معاملات خوش ا سلوبی سے حل ہو جائیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں