ہفتہ، 20 نومبر، 2021

نوازشریف کا ساتھ دینا مہنگا پڑ گیا،رانا شمیم اسلام آباد ہائی کورٹ کے شکنجے میں

نوازشریف کا ساتھ دینا مہنگا پڑ گیا،رانا شمیم اسلام آباد ہائی کورٹ کے شکنجے میں

19جون بروز جمعہ کواسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ صاحب کی طرف سے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کو باقاعدہ طور پر شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں ان کے ساتھ ساتھ دی نیوز کےایڈیٹر انچیف میرشکیل الرحمٰن اورانصارعباسی کو بھی جن کی یہ خبر تھی جس پر سوموٹو لیا گیا اورریذیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری کو بھی تحریری طور پرنوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ آپ نے توہین عدالت کی ہے اور سات دن کے اندر اندر جواب جمع کروائیں اور تیس نومبر کو یہ سب لوگ ذاتی حیثیت میں طلب کرلیے گئے ہیں۔ اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ عدالت ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہے۔

اب ہوا یہ کہ میاں نوازشریف کے حوالے سے یہ خبریں عام ہیں کہ ان کی مشکلات اور پریشانیاں ہیں وہ مریم نواز کی وجہ سے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں کی  ایڈوائس اور ان لوگوں کے مشوروں پر چل رہی ہیں جو کہ الیکشن ہی نہیں لڑتے اور اب میاں نوازشریف بھی اپنے چکر میں دوسروں کو مروانے لگ گئے ہیں ۔خیال تو یہ تھا کہ جس طرح رانا شمیم کو لندن میں بلوا کر ایفیڈیوٹ یعنی بیان حلفی لیا گیا اور اسی نوٹری پبلک سے اس کو تصدیق کروایا گیا جس سے میاں نواز شریف کی ساری چیزیں تصدیق ہوتی رہتی ہیں تو یہاں پر جب خبر چھاپی گی یاچھپوائی گئی اس کے بعد ن لیگ کی طرف سےپریس کانفرنس ہوگئی اور شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف نے کہا کہ اس پر سوموٹو لیا جائےکہ گلگت بلتستان کا ایک سابق چیف جج  یہ کہہ رہا ہے کہ میرے سامنے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب نے ہائی کورٹ اسلام آباد کے جج کو فون کیا اور کہا کہ 25 جولائی 2018ء کے الیکشن سے پہلے پہلے مریم نواز اور نواز شریف کی ضمانت نہیں ہونی چاہیئے پھر انہوں نے رجسٹرار کو جج کے گھر بھیجااور ان سے کہا کہ مجھ سے فون پر بات کریں پھر ان کے درمیان بات ہوگئی جس پر ثاقب نثار مطمئن ہوگئے اور پھر انہوں نے ایک اور کپ چائے منگوائی ۔یہ کہانی گھڑی گئی ۔اس پر سوموٹو لیا گیا لیکن ن لیگ جس طرح چاہتی تھی ویسانہیں ہوا۔ جسٹس اطہرمن اللہ جن کے حوالے سے میاں نواز شریف ہوں یا ان کے پسندیدہ ادارے یا صحافی وہ ان جسٹس کے حوالے سے بڑا اچھا لکھتے رہے ہیں لیکن جونہی جسٹس اطہرمن اللہ نے اس پر ازخود نوٹس لیاجو کہ وہ چاہتے تھے لیکن انہوں نے توہین عدالت کا لے لیا۔ کیونکہ انہیں تو سب کچھ پتہ تھا انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ بیان حلفی چھاپ دیا اس کودیکھا نہیں کہ اس میں جو باتیں کہی جا رہی ہیں وہ درست ہیں یا نہیں ہے ،آپ کچھ بھی چھاپ دیں گے۔جسٹس عامر فاروق تو اس کیس کو سن ہی نہیں رہے تھے وہ تو یہاں تھے ہیں نہیں۔میں اور وہ دونوں ملک سے باہر تھے۔

اس کےعلاوہ نواز شریف یامریم نواز کے وکلاء  نے کوئی تاریخ  ہی نہیں لی حالانکہ ان کے وکلاء کافی منجھے ہوئے اور قابل وکلاء ہیں انہوں نے تو کوئی تاریخ نہیں لی اگر کوئی ایسی بات تھی تو وہ لے سکتے تھے۔ تو یہ کہانی کوئی بن نہیں رہی۔

اب اس تحریری نوٹس کا مطلب ہوگا کہ عدالت اب اس کو آگے تک لے جا رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پرجسٹس  اطہرمن اللہ کےجو کچھ کہا گیا کہ وہ یہ کس طرح کرسکتے ہیں ان کو اچھا  سمجھا جاتا تھا انہوں نے یہ کیا کردیا  یہ غلط ہے اس سے وہ دباؤ میں نہیں آئے اور وہ آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور اب لگتا ہے کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کررہیں گے کیونکہ انہوں نےیہاں تک کہا ہےکہ آپ ثابت کر دیں توجسٹس ثاقب نثار کو بلایا جائے گا یہ لندن میں کیوں ہوا ہے ۔چونکہ اب یہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ کیس ہوا ہے اب ایک ایک کرکے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں