جمعرات، 25 نومبر، 2021

ترکش لیرا زمین بوس ہوگیا،طیب اردگان کو کمزور کرنے کی عالمی سازش عروج پر

 ترکش لیرا زمین بوس ہوگیا،طیب اردگان کو کمزور کرنے کی عالمی سازش عروج پر

اس وقت ترکش لیرا ،ترکی کی کرنسی زمین بوس ہوچکی ہےاور ترکی کی معیشت  اس وقت اس قدر ہچکولے کھا رہی ہے کہ وہ سب کچھ بھی ترکی جیسے ملک میں  اس وقت دیکھنے کو مل رہا ہے جو اس سے پہلے کسی بھی ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت میں نہیں ہوا۔ بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنی سیل تک روک دی ہے کیونکہ ترکی کی کرنسی اس وقت مکمل طور پر ڈاؤن فال کی طرف جارہی ہے۔اس سب کے اندرعالمی پابندیاں ،ترکی کو گرے لسٹ میں ڈالنا لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ طیب اردگان کی کچھ پالیسیاں بھی ہیں یہ پالیسیاں کیا ہیں ۔ ان کا موقف کیا ہے جس کی وجہ سے اس وقت ترکی کے اندر طیب اردگان کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ان کے خلاف بغاوت سر اٹھا رہی ہے۔لیکن یہ سخت فیصلہ اور کڑوا گھونٹ طیب اردگان نے کیوں بھرا۔پاکستان ،ایران اور ترکی اس وقت ایف اے ٹی ایف اورعالمی طاقتوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ایران کی کرنسی تباہ ہو چکی ،ترکی کی کرنسی پر سب سے بڑا حملہ ہو چکا ہے اور اب اگلا ہدف باقاعدہ طور پر پاکستانی روپیہ ہونے والا ہے۔

گزشتہ چند گھنٹوں میں ترکی کی کرنسی جوکہ پچھلے چند مہینوں سے بلکہ پچھلے کچھ عرصے سے ڈانواں ڈول رہی ہے ترکی کی کرنسی کےبارے کچھ بھی کنفرم نہیں کہا جا سکتا یہاں تک کہ اس وقت ترکی کے اندر ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ انقرہ اور استنبول کے اندر بہت سے لوگ اپنے مکانات اور ہوٹلز کا کرایہ یورو میں بتاتے ہیں اوروہ اپنی کرنسی لیرا کے بجائے یورو میں لینے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ ان کی اپنی کرنسی اس قدر ڈانواں ڈول ہوچکی ہے۔ اگر یو ایس ڈی کی بات کی جائے تواس وقت ڈالر کی قیمت 175پاکستانی روپے کا ہو چکا ہے۔  اسی طرح سے ایک ڈالر 11.۹۲ترکش لیرا کا ہو چکا ہے۔ ترکی کی معیشت اسے برقرار نہ رکھ پا رہی ہے۔کیونکہ یہ ایک بڑا سٹیپ سلوپ ہے۔

دی نیوز کے مطبق ترکش لیرا کریش کرگیا ہے طیب اردوگان نے معاشی جنگ کی وارننگ جاری کردی ہے۔ اس سارے معاملے میں کیا ہو رہا ہے آپ کے سامنے ساری کہانی رکھتا ہوں ۔طیب اردوگان مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور اپنے ملک کی معیشت کو چلانے کا ایک نیا طریقہ اپنانے جارہے ہیں اوراس نئے طریقے کی وجہ سے ان کی کرنسی زیرو پر جانے والی ہے ۔سی این این بزنس کی خبر کے مطابق طیب اردوگان مہنگائی کو کنٹرول کرنے کاانتہائی رسکی اور آگ سے کھیلنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں جبکہ ترکش لیرا کریش ہورہا ہے۔

اب اس وقت ترکی کی بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنی سیل روک دی ہے۔یہ کمپنیاں ایک دن کے لیے بھی ترکی کی کرنسی پر اعتبار نہیں کررہی ہیں ۔ اور دنیا کے ایک بہت بڑے برینڈ موبائل فون ایپل نے ترکی کے معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے اس وقت اپنی سیل روک دی ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے مکمل طور پر کسی بھی صورت ترکی کے اندر کچھ بھی نہیں بیچنا. اب ایک خبرآئی ہے کہ ترکش لیرا  ۱۰۰ ڈالر تک گرسکتا ہے ۔ناظرین یہ معاملہ ابھی سے نہیں بڑھا طیب اردگان کا اپنے ملک کے سنٹرل بینک سے پھڈا کافی عرصہ سے چل رہاہے۔طیب اردگان سود کی شرح کوتیزی سے کم کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سےبہت تنقید بھی ہورہی ہے۔ سینڑل بینک کے کافی ملازمین کو انہوں نے نکالا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔

طیب اردگان اپنے طریقے سے ملکی معیشت کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ ان کے خلاف احتجاج بھی ہونا شروع ہو چکے ہیں۔رائٹرز کی خبر کے مطابق اردگان ترکی کی معیشت میں بہت ہی رسکی تجربہ کرنے جارہے ہیں اور وہ آگ سے کھیلنے جارہے ہیں۔ دی گارڈین کے خبر کے مطابق مظاہروں اور مہنگائی میں اضافے کے درمیان اردگان معیشت پر جوا کھیل رہے ہیں۔ ترکی کے صدر کو اس وقت بڑی عجیب صورتحال میں ڈالا جارہا ہے اپوزیشن پارٹیز اس وقت اکٹھی ہوچکی ہیں اور وہاں پر عوام کو نکالا جارہے۔امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ ترکی کی حکومت اور طیب اردگان کا راستہ روکنے کے لیے ہمیں اپوزیشن کی ضرورت ہو گی اور اب لگتا ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہو چکے ہیں۔ اورطیب اردگان کو اپنے ملک میں کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ بن چکی ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے اور ظاہری بات ہے کہ پاکستان پرمعاشی پابندیاں،ایبسولیوٹلی ناٹ کہنے کی سزا، ایف اے ٹی ایف کے اندر رکھنا یہ تمام چیزیں پاکستان کے لیے بھی خطرے کی علامات ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خطرات بہت تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں اس لیے  اس سارے معاملے پروزیراعظم عمران خان  اور پاکستان کے پوری لیڈرشپ کو بہت زیادہ میں محتاط رہنا ہوگا کیونکہ انٹرنیشنل لیول پرآئل وار شروع ہوچکی ہے ایک طرف سعودی عرب ،یواے ای اور اوپیک ممالک جبکہ مخالف سائیڈ پرامریکہ ،چین،روس اور بھارت ہیں۔یہ سب ممالک اپنے آئل ریزرو اپنے کھولنے والے ہیں تاکہ آئل کی قیمتیں کم ہوں۔اگر تیل کی قیمتی بڑھیں گی تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مشکلات میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں