بدھ، 15 دسمبر، 2021

تبلیغی جماعت پر پابندی،سعودی عرب خفاء کیوں؟ بی بی سی نے پول کھول دیا

تبلیغی جماعت پر پابندی،سعودی عرب خفاء کیوں؟ بی بی سی نے پول کھول دیا

 

تبلیغی جماعت پر پابندی کی خبراس وقت میڈیا ،سائٹس ،اخبارات اورسوشل میڈیا ہر طرف اس وقت سب سے زیادہ مقبول ترین خبر ہے۔ اب بی بی سی یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ اصل کہانی کیا ہے کیوں سعودی عرب نے پابندی لگائی ہے اس تفصیلی رپورٹ میں تبلیغی جماعت کا بھی موقف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاملہ بہت زیادہ حساس ہے اس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے سعودی عرب میں کیا کیا جا رہا ہے،سزائوں کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے ماضی کیا تھا،مستقبل میں کیا دیکھا جا رہا ہے خطبات میں کیا بات ہو رہی ہے اور کیوں سعودی عرب اس جماعت کو دہشت گردی سے جوڑ رہاہے۔ سعودی عرب کا اس پر کیا موقف ہے۔ساری تفصیل آپ کے سامنے رکھی جائےگی۔

 یہ تفصیلی رپورٹ 13 دسمبر 2019 کو شائع ہوتی ہے اس رپورٹ کا عنوان ہے کہ سعودی عرب میں جمعہ کے خطبوں میں تبلیغی جماعت کی مذمت کیوں کی جارہی ہے؟ جبکہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر یہ ٹائٹل دیا جارہا ہے کہ سعودی عرب تبلیغی جماعت سے خائف کیوں ہے؟ یہ رپورٹ کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہےکہ  سعودی عرب کا ملک ایک ہی جماعت اور راستے پر چل رہا تھا کہ باہر سے کچھ جماعتیں آئیں اس ایک جماعت اور ایک مذہب پر چلنے والے لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا )سعودی شہریوں (اتحاد پارہ پارہ ہوجائے ان معروف جماعتوں میں سے ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جو اپنے آپ کو اس ملک )سعودی عرب(میں احباب کے نام سے پکارتے ہیں۔

جماعت کی اصل ہند)برصغیر(میں ہے۔ جماعت تبلیغ پیغمبراسلام کے کئی طریقوں کےمخالف چلتے ہیں یہ جماعت بغیر علم کے دعوت کے لیے نکلتی ہے ۔یہ  اللہ اور پیغمبر اسلام کے طریقے کے برخلاف ہے یہ وہ جماعت ہے جس سے دہشت گردگروپ بھی پیدا ہوئے ان کے ساتھ چلنے والے لوگ علم کی کمی کا شکار ہوکرتکفیری جماعتوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے دہشت گرد جماعتوں کے لوگ جو کہ یہاں ) سعودی عرب( کی جیلوں میں بند ہیں ان کے بارے میں تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ پہلے تبلیغی جماعت میں شامل تھے اس ملک " سعودی عرب "کی فتوٰی دینے والی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ اس جماعت )تبلیغی جماعت یا احباب( کے ساتھ شریک ہونا جائز نہیں ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی دعوت قبول نہ کریں یہ جماعت اور اس جیسی جماعتیں ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گی یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔

 یہ خطبہ سعودی عرب کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعہ کے روزدیا گیا تھا اس سے ملتے جلتے خطبے  تقریباً تمام ہی مساجد میں سعودی عرب  کے وزارت مذہبی امورکی ہدایت پر دیے گئے۔سعودی عرب کے وزیرمذہبی امورڈاکٹرشیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز الشیخ نے اپنی ٹویٹ میں بھی سعودی عرب میں جمعے کے خطبے میں تبلیغی جماعت کے بارے میں عوام کوآگاہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس پر پاکستان میں تبلیغی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے اس پر کوئی بھی بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم دارالعلوم دیوبند انڈیا نے مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے تبلیغی جماعت پر عائد کئےگئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کی وزارت مذہبی امورمیں فرائض انجام دینے والے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی کوئی نہیں ہے بلکہ حالیہ ٹویٹ اور خطبات کی ہدایت درحقیقت پرانی پابندی کا ایادہ ہے۔

اب اگلا عنوان ہے کہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی کا معاملہ کیا ہے ؟

سعودی وزارت مذہبی امور میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے ایک اہلکار کے مطابق تبلیغی جماعت پر پابندی کے ماجرے کو سمجھنے سے پہلے سعودی عرب میں جاری نظام کو سمجھنا ہوگا جو مختصراً یہ ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو قانون کے تحت کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔اسی طرح سے سعودی عرب میں داخلے اور کام کی اجازت ویز اوراقامہ کی شرائط کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب میں دعوت وتبلیغ کے لیے داخلے کی اجازت نہیں ہے یعنی اس کا کوئی ویزا یا اقامہ موجود ہی نہیں ہے اب اگرکوئی شخص ڈاکٹر کے ویزے یا اقامے پر سعودی عرب میں داخل ہوتا ہے تو صرف اپنا کام یعنی اسپتال وغیرہ میں اس کو کام کی اجازت دی گئی ہے وہاں پر صرف طب کے شعبےسے متعلق ہی کام کرے گا اس کو تبلیغ و دعوت کا کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی دعوت و تبلیغ کے لیے حکومت کی جانب سے ادارے اور لوگ مقررہیں ۔

اسی طرح اگر کسی عالم یا مترجم کو بنگلہ دیش افغانستان ،افریقہ، انڈیا یا  پاکستان وغیرہ سے اقامہ یا ویزا دیا جاتا ہے  تو وہ مترجم اور عالم ہی رہے گا اس کو کسی کا علاج معالجہ دم درود کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اگر وہ اپنے اقامے یا ویزا میں دے گئے کسی بھی کا م سے تجاوز یا اس سے ہٹ کرکچھ کرے گا تو یہ قانونی طور پر جرم ہے۔

 تبلیغی جماعت کا آغاز انڈیا سے ہوا ساری دنیا میں اس کو تبلیغی جماعت ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے مگر اس کو سعودی عرب میں احباب کے نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کے نام سے کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ احباب کا نام بھی غالباً حکام کی نظر سے بچنے کے لیے استعمال کیا گیا کیونکہ یہ بول چال میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔دنیا بھر سے تبلیغی جماعت کے لوگ سعودی عرب  میں اپنے داخلے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں عموماً ان کی وہ جماعتیں جو کہ ایک ایک سال کے لیے مختلف ممالک کےدوروں پر ہوتی ہیں وہ عمرہ،حج یاسیاحت کا ویزا حاصل کرتے ہیں۔ اس ویزے کی بنیاد پر دو یا تین ماہ یا چند دن سعودی عرب کے مختلف شہروں میں قیام کر کے تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کو خلیجی ریاستوں کےکچھ لوگوں کا بھی تعاون حاصل ہوتا ہے ۔ ان اطلاعات پر چند سال قبل سعودی  محکمہ داخلہ اور وزارت مذہبی امورنے سخت کارروائی کی تھی اور ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں کئی لوگوں کو تبلیغ کا کام کرتے ہوئے پکڑا گیا اور ان کو سعودی عرب کے قوانین کے مطابق سزائیں دی گئی تھیں۔

اسی طرح جب دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھڑی تو دیکھا گیا کہ کئی سعودی جن کی زیادہ تعداد پاکستان اور افغانستان گئی تھی وہ تبلیغی جماعت کی آڑ لےکر گئی تھی اس کے بعد سعودی شہریوں پر بھی پابندی عائد کی گئی اور پاکستان کے سفارتی حکام سے کہا  گیا کہ وہ تبلیغ کے لیے سعودی شہریوں کوویزے نہ دے جس پر اب بھی عملدرآمد جاری ہے۔ ان تمام امورپر بات کر کے تبلیغی جماعت کے لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا گیا مگر انھوں نے اس سمیت ہر موضوع پر بات کرنے سے انکار کیا ہے مذہبی جماعتوں پر کئی برسوں سے رپورٹنگ کرنے والے کراچی سے صحافی عظمت خان کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعت کےچاہے اپنے ارکان قتل کر دیا جائے یا ان کے لوگوں پر کسی واقعے میں ملوث ہونے کا الزام ہو،جماعت اس پر بات نہیں کرتی اور اپنا کام جاری رکھتی ہے ۔

تبلیغی جماعت کرتی کیا ہے؟

عظمت خان کے مطابق بظاہر تبلیغی جماعت کا کوئی  بھی کام خفیہ یا پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ لوگ سیاست میں ملوث نہیں ہوتے اس کے سرکردہ لوگ کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کے کارکن اور رہنما نہیں ہوتے ہوئے۔کوئی بھی سیاسی، معاشی یا معاشرتی ایجنڈا نہیں رکھتے اور ہر ایک کو اپنی صفوں میں قبول کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ساتھ شامل ہونے والوں میں سے کسی سے بھی نہیں پوچھتے کہ کیوں وہ ان کی صف میں شامل ہوئے ہیں ،مقاصد کیا ہیں بس ان کے ساتھ جوبھی آ جائے یہ اس کو خوش آمدید کہتے ہیں یہ بظاہراسلام کے معاملات کی بات کرتے ہیں جس میں لوگوں کو کلمہ نماز عربی میں دعائیں اور قرآن سکھانا شامل ہوتا ہے۔

عظمت خان کا کہنا ہے کہ  پاکستان بنگلہ دیش، افغانستان ، انڈیا ،افریقہ اور حتّٰی کہ برطانیہ ،امریکا میں بھی چند برسوں کے دوران تبلیغی جماعت بہت مقبول ہوئی ہے جس کی بظاہروجہ  ان کا ڈھیلا ڈھالا سا نظم و ضبط اور خود سے منسلک لوگوں کے حوالے سے کوئی ذمہ داری قبول نہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی  کے خلاف جنگ کے دوران کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں کہا گیا کہ کچھ دہشت گردوں نے ان کی صفوں میں پناہ حاصل کی تھی مگر تبلیغی جماعت نے کبھی بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور پاکستان کی حد تک کبھی بھی ریاست یا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تبلیغی جماعت کو اس کا قصوروار نہیں ٹھہرایا۔

سعودی عرب کا سخت ردعمل کیوں ؟

مذہبی جماعتوں پر طویل عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے سبوخ سید کے مطابق ایسی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ سعودی عرب میں قرار دی گئی تنظیموں القاعدہ اور الاخوان المسلمون  وغیرہ کے لوگوں کے علاوہ فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کے لوگوں نے بھی کسی نہ کسی طرح تبلیغی جماعت کی صفوں میں شامل ہو کراپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رائے ہمیشہ سے رہی ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان اور دیگر ممالک  کی تبلیغی جماعت کے مقابلے میں انڈیا کی تبلیغی جماعت کا زیادہ عمل دخل ہے انڈیا میں بھی گذشتوں دنوں تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات موجود ہیں جن میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بظاہر تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروف عمل لوگوں کو تبلیغ کے دوران گرفتار کیا تھا جن میں سے کچھ سعودی شہریوں اور دیگر بھی شامل تھے جس کے بعد سعودی شہریوں کو تبلیغ کے نام پر کچھ عرصے سے ویزےجاری نہیں کیے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے سعودی حکومت ہوسکتی ہے۔

سبوخ سید کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ سعودی حکومت کو یہ شبہ ہے کہ اپنے ملک میں موجود احباب کے نام سے موجود تبلیغی  جماعت کی صفوں میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ شامل ہیں جو موجودہ سعودی فرمانروا کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح شاید ا نہیں یہ بھی شبہ ہے کہ ایسی تنظیمیں جن پر سعودی عرب نے پابندی عائد کررکھی ہے تو تبلیغی جماعت یا احباب کے نام سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے سعودی عرب کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

سبوخ سید کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ سعودی عرب کے نظام کےتحت اسلام کی تشریح ،اسلامی قوانین، دعوت و تبلیغ اوراسلامی معاملات میں فتوٰی دینے جیسے کاموں کی کسی بھی جماعت کو اس بات کی اجازت نہیں بلکہ یہ سارےکام حکومت اپنی مختلف وزارتوں کی وساطت سے خود کرتی رہتی ہے اس صورتحال میں بھی وہاں پرتبلیغی جماعت یا احباب کے کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام کی جانب سے حالیہ ٹویٹ اور جمعہ کے خطبات میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک بار بات کرنے کا مطلب  تبلیغی جماعت یا احباب کے لوگوں کو وارننگ جاری کرنا ہوسکتا ہے۔  جس میں ممکنہ طور پر اگر کوئی سرگرمی سعودی حکومت کے نوٹس میں آئی تو اس پر شدید کاروائی بھی ہوسکتی ہے۔

سعودی عرب اب جدّت پسندی کے سفر پر نکل چکا ہے دیکھتے ہیں محمد بن سلمان اس کو کہاں تک لے کر جاتے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں