جمعرات، 16 دسمبر، 2021

تختہ الٹ گیا،سعودی بادشاہ قید،ولی عہدمحمد بن سلمان کا ٹیک اوور؟ برطانوی میڈیا

 تختہ الٹ گیا،سعودی بادشاہ قید،ولی عہدمحمد بن سلمان کا ٹیک اوور؟ برطانوی میڈیا

اس وقت ایک جانب تو سعودی عرب کےاندر ماڈرنائزیشن کی پالیسیز اور محمد بن سلمان اور شاہی خاندان کے پرانے لوگ اور بزرگوں کے درمیان ایک بہت بڑا نظریاتی اختلاف چل رہا ہے تو وہیں دوسری طرف جدّت پسندی کی طرف جتنی تیزی سے عملدرآمد شروع  ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور جسے دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمان حیران و پریشان ہوگئے ہیں اس سارے معاملے میں کچھ انتہائی تشویشناک خبر سامنے آرہی ہیں اس وقت سعودی عرب کے فرمان رواسلمان بن عبدالعزیز جو کہ کنگ اور محمد بن سلمان کے والد ہیں اور محمد بن سلمان جن کے پسندیدہ بیٹے ہوا کرتے تھے جنہیں انہوں نےاقتدار میں آتے ساتھ ہی ولی عہد بنایا  اور محمد بن سلمان کو ان کی پالیسیوں پر کافی ڈھیل دیتے رہے اس وقت اپنے والد کو ٹیک اوور کرنے کرچکے ہیں ایسی خبریں گردش کررہی ہیں ۔اس حوالے سےبرطانوِی جریدے دی گارڈین نے ایک بہت بڑا دعوی کردیاہے جس نے سعودی عرب کے شاہی خاندان سمیت  پوری امت مسلمہ میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ۔ یہ اختلافات کیا ہیں اوراس وقت معاملہ کیا ہے اور کس طرح سے محمد بن سلمان مکمل طور پر سعودی عرب کا نظام ٹیک اوور کر چکے ہیں اس حوالے سےتفصیل آپ کے سامنے رکھنی جائے گی۔

 2015میں جس وقت سلمان بن عبدالعزیز سعودی عرب کے فرمانروا بنے اس وقت محمد بن نائف ولی عہد تھے جو کہ امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے منظورِنظر تھے لیکن ان کو ہٹا کر محمد بن سلمان ولی عہد بنادیاگیا ۔محمد بن سلمان نوجوان شخص ہیں وہ اس وقت مکمل طور پر سعودی عرب کا اقتداراپنے ہاتھوں میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ سعودی عرب کے گزشتہ جتنے بھِ فرمانروا گزرے ہیں تو ان کی عمر 90، 95 برس کے درمیان تھیں جبکہ محمد بن سلمان ابھی تیس کی دہائی میں ہیں اورانہیں نظر آرہا ہے کہ وہ سعودی عرب کے تادیرحکمران بن سکتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنی راستے کی رکاوٹیں  ہٹانے کا سلسلہ جاری کردیا ہے۔کرپشن،منی لانڈرنگ، انسانی حقوق، بغاوت ،غداری ،مظالم روکنے کے نام پراورکبھی صحافیوں کے قتل کرنے کے نام پر وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔محمد بن سلمان اپنے والد کے پسندیدہ بیٹے تھے لیکن 2019 کے بعد ان کے درمیان اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ اس حوالے سے 2019 میں بھی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس کے مطابق باپ بیٹے کے درمیان پہلی مرتبہ اختلاف سامنے آئے ہیں اور برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اوران کے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کے مابین یمن جنگ سمیت دیگر اہم مسائل پر شدید اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں اہم شخصیات کے درمیان اختلافات کی فضا ترکی میں اس وقت سعودی قونصل خانے کے اندر صحافی کے قتل کے بعد پیدا ہوئی اوراس قتل میں سی آئی اے نے باقاعدہ طور پرمحمد بن سلمان کو موردِالزام ٹھہرایا توسلمان بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹے کو کہا کہ میں نے تمہیں تمہیں کہا تھا کہ تم پھنسو گے اب دیکھ لو ایسا ہی ہوا ہے۔رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2019 میں فروری کے آخر میں صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی جب تراسی سالہ سلمان بن عبدالعزیز جو کہ اب ظاہری بات پچاسی سال کے ہو چکے ہیں نے مصر کا دورہ کیا جہاں ان کے مشیروں نے انہیں خبر دار کیا کہ ولی عہد کے خلاف کارروائی  کی صورت میں انہیں غیر معمولی خطرہ ہے یعنی انہیں پنے ملک میں یہ بات نہیں بتائی جا سکی تھی۔ اس حوالے سے مزید انکشاف کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کے بادشاہ کے مصاحبین نے انہیں ممکنہ طور پر خطرے سے آگاہ کیا جس کے بعد وزارت داخلہ نے تیس سے زائد انتہائی وفادار سکیورٹی اہلکاروں کو مصر روانہ کرکے پہلے سے موجود سکیورٹی اہلکاروں کو واپس بلالیا۔ذرائع کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کی فوری تبدیلی سے یہ ظاہر ہوچکا تھا کہ بادشاہ کی سیکیورٹی کے لیے تعینات بعض افسران محمد بن سلمان کے انتہائی وفادار تھے البتہ وہ کنگ کے وفادار نہیں تھے اور اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ شاہ سلمان کے مشیروں نے مصر کی جانب سے فراہم کردہ سیکیورٹی اہلکاروں کی خدمات بھی واپس لے لیں کہ کہیں یہ عرب ورلڈ کے اندر کوئی سازش نہ ہو رہی ہو۔

اور اس کےاندر باپ اور بیٹے کے درمیان کشیدگی کو اس طرح سے بھی محسوس کیا جا سکتا تھا کہ شاہ سلمان کی وطن واپسی پر استقبال کے لئے افراد کی فہرست میں اس وقت محمد بن سلمان کا نام نہیں تھا اور یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ بیٹا ان سے ناراض ہے وہ  وہاں پرگیانہیں یا پھر اسے مدعو نہیں کیا گیا البتہ رواج یہ ہے فرماں روا آتے ہیں تو ولی عہد اور اور تمام ترعہدیداران ان کا استقبال کرنے جاتےہیں ۔

شاید آپ کو معلوم ہو کہ حال ہی میں فرانس کے صدرمیکرون نے سعودی عرب کا دورہ کیا جس کی سعودی فرمانروا سے ملاقات نہیں ہو سکی اور اب جا کر برطانوی جریدے نے بم پھوڑا ہے۔اس جریدے کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں عرب لیڈر اکٹھے ہورہے ہیں جس میں فرماںروا شاہ سلمان کی غیرموجودگی ایک سوالیہ نشان  ہے کہ کہیں بیٹے کی طرف ہاوس اریسٹ یا حبسِ بیجا کا معاملہ تو نہیں ہےکہیں بیٹے نے مکمل ٹیک اوور تو نہیں کر دیا کیونکہ گارڈین اس وقت لکھ رہا ہےکہ شاہ سلمان کی اس وقت بہت زیادہ کمی محسوس نہیں کی جا رہی ہے اور اس پر سوال بھی اٹھ رہا ہے پچھلے 20 ماہ سے سعودی فرمانروا کو دیکھا نہیں گیا ولی عہد ہرچیز کو سنبھالے ہوئے ہیں ایسے سمجھ لیں کہ  مکمل طور طاقت ان  کے ہاتھوں میں آ چکی ہے اور انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اس پر بات کرے یا نہ کرے۔ اور محمد بن سلمان  ایسے لگ رہے تھے کہ جیسے وہ انچارج ہیں۔ اتنے بڑے ایونٹ میں جس میں بڑے بڑے لیڈر آ رہے ہیں شاہ سلمان کی غیر موجودگی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

اس تمام واقعات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہی گمان کیا جارہا ہے کہ محمد بن سلمان اقتدار پر آفیشلی  طور پر قبضہ کر چکے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں