اتوار، 16 جنوری، 2022

بھارت مسلمانوں کی نسل کشی کررہاہے،امریکی پروفیسر کا انکشاف...روس حملہ کرنیوالا ہے،امریکی انٹیلی جنس کا دعوٰی....صبرکا پیمانہ لبریزہورہا ہے،روس کا ردِّعمل....برطانیہ 007نہ بنے،چین کی برطانیہ کو وارننگ

بھارت مسلمانوں کی نسل کشی کررہاہے،امریکی پروفیسر کا انکشاف 

روس حملہ کرنیوالا ہے،امریکی انٹیلی جنس کا دعوٰی

صبرکا پیمانہ لبریزہورہا ہے،روس کا ردِّعمل

برطانیہ  007نہ بنے،چین کی برطانیہ کو وارننگ

ایک رپورٹ آئی ہے کہ روس امریکہ پر بہت جلدحملہ کرنے والاہے اوراس کے لیے وہ کیا طریقہ کار اختیارکریگا  یہ انٹیلی جنس رپورٹ میں آپ کے ساتھ شئیر کروں گا کہ روس نے کہا کہ اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریزہوگیا ہے وہ اب مزید نہیں کر سکتا اور یہ ایک طرح کی دھمکی ہے چین نے بھی برطانیہ کو دھمکی دی ہے کہ وہ زیرو زیرو سیون بننے کی کوشش نہ کرے ۔جینو سائیڈ واچ کی ایک رپورٹ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور ہے ۔"نسل کشی کے دس مراحل " کا نظریہ پیش کرنے والے امریکی پروفیسرگریگوری اسٹینٹن کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمان نسل کشی کے آٹھویں مراحل تک پہنچ گئے ہیں انہوں نے بھارت کے لئے "جینو سائیڈ ایمرجنسی الرٹ" کا اعلان کیا ہے اقوام متحدہ میں مشاورتی حیثیت کی حامل امریکہ کی غیر منافع بخش تنظیم "جسٹس فار آل " کی  جانب سےرواں ہفتے منعقدہ ورچوئل عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسرگریگوری اسٹینٹن نے کہا کہ بھارت نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہےمیں سرکاری عمارتوں میں کچھ کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی "ایسا ہوتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے" ۔پروفیسرگریگوری اسٹینٹن امریکی ادارے "جینوسائیڈ واچ " کے بانی ہیں یہ ادارہ  نسل کشی اور بڑے پیمانے پر قتل کی دیگر شکلوں کی پیشن گوئی  اور اس کے تدارک کے لیے کام کرتا ہے۔

 اس رپورٹ آپ اگر ڈی ڈبلیو نیوز پر جاکر پڑھیں یا جینوسائیڈ واچ کی سائیٹ پر جا کر مطالعہ کریں تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ بھارت کے بارے میں یہ کس قسم کا خطرہ اور وارننگ انہوں نےجاری کی ہے ۔بھارت ایک بڑا ملک ہے بھارت میں بہت ساری اقلیتیں بھی رہتی ہیں اورہندووں کی اکثریت  رہتی ہے۔ اوراس کا آئین اس کوایک سیکولر ملک بناتا ہے لیکن وہاں سے ایسی بہت ساری خبریں آ رہی ہیں جس کی وجہ سے بھارت کےلیے بدنامی ہے تو میرے خیال میں بھارت کوان رپوٹس کی روشنی میں ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور وہ اقدامات اٹھانے چاہیئیں جن کی عالمی تنظیمیں ان سے تقاضا کر رہی ہیں۔

 اب ایک دوسری اہم خبرجسے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ریلیز کیا ہے کہ امریکہ کے انٹیلی جنس نے ایک دعویٰ کیا ہے کہ روس مشرقی یوکرائن کے خلاف فالس فلیک آپریشن کی تیاری کر رہا ہے ۔  وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ روس سوشل میڈیا کی ایک مہم کے ذریعے ہے یوکرائن کو جارحیت دکھانا چاہتا ہے جو روسی حمایت یافتہ فورسز کے خلاف مشرقی یوکرین میں فوری حملے کی تیاری کر رہا ہے انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روس نے شہری جنگ میں مہارت رکھنے والے ایجنٹس کو پہلے ہی اس علاقے کی جانب روانہ کر دیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق روس کی پراکسی فورسز کے خلاف  کارروائیاں کریں گے اور ان کا کچھ حد تک جان بوجھ کرنقصان کریں گے اورپھر اس طرح اس کا الزام امریکہ میں لگا دے گا ہے ۔اس کو سمجھنے کے لیے آپ بھارت کی مثال لے لیں کہ جس طرح بھارت اپنے ہی ملک میں پہلے خود ہی کارروائی کرواتا ہے اورپھر اس کا الزام سوچے سمجھے بغیر پاکستا پر لگا دیتا ہے۔ امریکہ کے مطابق اب روس بھی ویسا ہی کرے گا۔اور یوکرائن پر حملہ کردے گا۔جینوصحافی کا یہ کہناتھا کہ ہمیں اس بارے میں بہت تشویش ہےکہ اگر سفارتکاری اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہےتو روسی حکومت یوکرین پر حملے کا فیصلہ کرچکی ہےجو انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہونگی اور جنگی جرائم پر بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا اب چونکہ روس اگرحملہ کرے تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جنگی جرائم ہوگی کوئی اور حملہ کرے تو نہیں ہو گی آپ نے افغانستان ،عراق ،لیبیا اور شام کو دیکھا  اور بہت ساری ایسی مثالیں ہیں جہاں پہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز نہیں اٹھائی جاتی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے انٹیلی جنس معلومات کو انتہائی معتبر قرار دیا ہے اوران معلومات کو بہت حد درست کہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ نتائج لوگوں کے درمیان ہونے والے روابط  اور ان کی نقل و حرکت سے اخذ کیے گئے  کہ روس کس فالس فلیگ آپریشن کے بعد یوکرین پر حملے کا بہانہ بنائے گا اور پھر روسی صدر یوکرین پر حملے کا باقاعدہ اعلان کردیں گے امریکی کانگریس میں معلومات کو منظر عام پر لانے سے قبل امریکی اتحادیوں کے ساتھ بھی شئیر کیا گیا ہے ۔ان معلومات کے مطابق روس یوکرین پر حملہ جنوری کے وسط سے لے کرفروری کے وسط تک کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔دوسری جانب یورپی ممالک نے بھی یوکرین کے ساتھ اظہارِیکجہتی کیا ہے۔

روس کی جانب سے ردِعمل دیتے ہوئےروسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا ہے کہ مغرب کے وعدہ خلافی سے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے ہم مغرب کے وعدوں کا مزید انتظار نہیں کریں گے یہ ایک طرح کی دھمکی ہے ماسکو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیٹو اپنی مرضی سے ہرکسی پر ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ اپنی سلامتی کو کیسے یقینی بنانا ہے روس کسی بھی صورت میں اپنی سلامتی کی حفاظت کرنے کے قابل ہے اور وعدوں کا زیادہ دیر انتظار نہیں کرے گا انہوں نے کہا کہ روس نے یورپی سلامتی سے متعلق معاہدے کا مسودہ پیش کرنے کی کوشش کی تھی مگر اسے غلط سمجھا گیا۔مغربی ممالک کی جانب سے روس کی خودمختاری پرحملوں کو قطعی طور پر ناقابل قبول سمجھتے ہیں کیونکہ روس یہ  کہتا ہے کہ یوکرین میں یا روس کے قریب جو یورپی ممالک ہیں وہاں پر نیٹو فورسزنہ آئے وہاں پرمغربی ممالک کا اسلحہ ،میزائل، اینٹی ائیر کرافٹ سسٹم یا اس طرح کی چیزیں یہاں پر نہ لائی جائیں۔

روس یہ کہتا ہے کہ فرض کریں اگرہم میکسیکومیں جا کراپنے ہتھیا رلگا دیں تو امریکہ کو کیسا لگے گا میکسیکو امریکہ کا حصہ تو نہیں ہے لیکن میکسیکو امریکا کے قریب ہے اگر چین یا روس اپنے ہتھیاروں کو نصب کردیں تو امریکہ بہت برا لگے گا اس کو لگے گا کہ اس کی سکیورٹی خطرے میں ہے۔ روس کہتا ہے کہ اسی طرح اگر امریکہ یا یوریپ ممالک اپنے ہتھیاریہاں پر نصب کردیں گے تو ہمیں بھِی لگے گا کہ ہماری سکیورٹی خطرے میں ہے گے اس لیے ہمیں گارنٹی دی جائےتو پھر بھی ہمیں کر دی جائیں اگر آپ گارنٹی نہیں دیتے تو پھر ہم اس کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ روس امریکہ اور نیٹو سے قانونی تحفظ کی ضمانت چاہتا ہے کیونکہ مغربی شراکت داروں نے کبھی بھی اپنی سیاسی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں تواب تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ان پر عملدرآمد نہیں کریں گے اور ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔  اس پر پولینڈ کی وزیر خارجہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ایک وارننگ جاری کی ہے کہ یورپ اس وقت جنگ کے بہت قریب پہنچ چکا ہے اور یہ بالکل وہی حالات ہیں جیسے کہ تیس سال پہلے تھے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپ کی سکیورٹی اور تعاون سے متعلق ستاون ارکان پر مشتمل تنظیم اوایس سی ای کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اوایس سی ای کے علاقے میں جنگ کا خطرہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا آج سے تیس سال پہلے تھا دوسری جانب امریکہ کی نائب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ روس اورنیٹو کے مابین سرحدی صورتحال پرہونے والے اجلاس میں ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا کہ کشیدگی میں کمی لائی جائے گی اور نہ ہی ایسا کوئی بیان سامنے آیا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا ۔یعنی امریکہ ابھی تک اپنے سارے پتے اپنے ہاتھ میں لےکر بیٹھا ہوا ہے وہ روس کو کوئی گارنٹی بھی نہیں دے رہے اور دوسری طرف جنگ کےخدشات کا اظہاربھی کر رہے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہہ رہا ہے اس کا ردعمل بڑا شدید ہوگا۔  اسی دوران امریکہ نے ایران پر بڑی سختی شروع کر دی ہے انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدے کے لیے ایران کے پاس صرف چند ہفتے باقی ہیں یہ امریکا کا اعلان ہے اور امریک وزیرخارجہ نے امریکی ریڈیو اسٹیشن کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ جوہری معاہدہ کو بچانے کے لئے تہران کے پاس اب صرف ہفتے باقی ہیں اور امریکا مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں دوسرے آپشنز پر غور کرے گا ۔یہ دوسرے آپشنزکون کون سے ہیں نمبر ایک تو امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے ایٹمی تنصیبات پر شدید حملے کرسکتا ہے ایران پرمزید پابندیاں لگا سکتا ہے  اور ایران کے لیے دنیا کے اندراپنے بچاو کے لیے کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔

اس صورتحال میں سب سے پہلے چین ایران کے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ میں نے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی ہے جس میں اس نے کہا کہ ایران پر یکطرفہ پابندیوں کی مخالفت کرتے ہیں ایران کے جاری مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے اور امریکہ کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں جس نے یکطرفہ طور پر۲۰۱۵ میں کیے گئے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے سے خود کو علیحدہ کر دیا تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ ختم کردیا تھا اور اس کے بعد ایران پر پابندی لگا دی تھی تو ایران تب سے لے کراب تک ان پابندیوں کی زد میں ہے۔چین یہ کہہ رہا ہے کہ یہ سب امریکہ کی غلطی کی وجہ سے ہوا اب ایران کوموقع فراہم کیا جائے ۔

برطانیہ کی ایجنسیز نے یہ وارننگ جاری کی ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ چائنہ سے فنڈنگ  لیتے ہیں اور چائنا فنڈنگ کی وجہ سے وہ اس کے لیے جاسوسی کا کام کرتے ہیں اب اس میں چین نے باقاعدہ ردعمل دیا ہے  اور یہ ہانگ کانگ سے چھپی ہے انہوں نے کہا کہ چین کا برطانیہ کو جواب ،برطانوی الزامات بہت زیادہ زیروزیروسیون ٹائپ فلمیں دیکھنے کا نتیجہ ہے اور انہوں نے بتایا کہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ برطانیہ کے ارکان اسمبلی کی جاسوسی کرنے کے یا ان کے اکاونٹ پبلک کرنے الزامات بے بنیاد ہے ہمیں ایسا کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور مزید کہا کہ برطانوی حکام جیمزبانڈ کی کتاب اور فلم زیروزیرو سیون دیکھنے کے بہت زیادہ شوقین ہیں اور شاید اسی بنیاد پرانہوں ایسی فرضی رپورٹ تیارکرلی ہے  جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں