بدھ، 19 جنوری، 2022

عمران خان کاحوثی باغیوں کو یواےای پر حملوں سے بازرہنے کی تنبیہہ

 عمران خان کاحوثی باغیوں کو یواےای پر حملوں سے بازرہنے کی تنبیہہ

اس وقت متحدہ عرب امارات اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان ہونے والا تنازعہ ایک عالمی تنازعے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں اب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا ایک ایسا دبنگ بیان سامنے آیا ہے جس نے بہت سے لوگوں کو حیران بھی کر دیا ہے پاکستان ایک ایسا ملک  جو کہ ایران اور عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کرانے، ان دونوں کے درمیان امن و امان قائم کروانے اور ان کے تعلقات کی بحالی کے لیے سب سے زیادہ اقدامات کرتا آیا ہے اس پاکستان کے وزیراعظم کی طرف سے ایک بڑا واضح اور دوٹوک پیغام حوثی باغیوں کو، ایران کو اور پوری دنیا کوگیا ہے جس کی تفصیل آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن اس معاملے میں یو اے ای اس وقت تذبذب کا شکار کیوں ہے اور کیوں اس وقت حوثی باغی سبقت حاصل کر چکے ہیں اور یو اے ای کیوں کوئی فل فلیج آپریشن حوثی باغیوں کے خلاف اب نہیں کرنے جارہا ہے اور کیوں وہ اس وقت ڈر کرخاموش بیٹھ چکے ہیں۔

اس وقت یواے ای کے خدشات کیا ہیں ہے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلے الجزیرہ کی ایک رپورٹ ہے جس میں تجزیہ نگاروں کے مطابق اس حملے نے یواےای جوخود کو محفوظ سمجھتا تھا اور جس کا بارڈر بھی یمن کے ساتھ نہیں لگتا کے محفوظ ہونے کے تاثر کی نفی کردی ہے۔ حوثی باغیوں کی طرف سےیکے بعد دیگرے تین بڑے دھچکے لگائے ہیں اور یواے ای کو دوبارہ اس جنگ میں دھکیل دیا ہے جس سے وہ راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا تھا۔حوثی باغیوں کی طرف سے ایسا اقدام سمجھ سے بالاتر ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق  اس وقت ایک مہلک حملے کے بعد یواےای محتاط ہے کہ چھوٹی موٹی سٹرائیک تو ہم حوثی باغیوں کے خلاف کرنے کو تیار ہیں لیکن بڑے پیمانے پرحملہ نہیں چاہتا اور حملہ کرنے سے ہچکچارہا ہے۔وہ اس معاملے میں تہران پر ڈائریکٹ الزام نہیں لگا رہا بلکہ یمن کو موردِالزام ٹھہرارہا ہےجبکہ اسرائیل اس سب کا الزام ڈائریکٹ ایران پر لگا رہا اصل میں یواےای ایران پر الزام لگانے سے پہلے اپنے ملک کی سکیورٹی کو محفوظ کرنا چاہتا ہے۔

اب یواےای سلامتی کونسل میں چلاگیا ہے اورعرب نیوز کی خبر کےمطابق ابوظہبی پر حوثیوں کے حملے پر متحدہ عرب امارات نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ پاکستان نے یمن جنگ میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی جوکہ بڑا بہترین فیصلہ تھا  لیکن حوثی باغیوں کو لے کردنیا اپنا موقف بدلتی رہی ہے۔ امریکا انہیں پہلےدہشت گرد کہتا تھا لیکن اب امریکہ نے نہ صرف سعودی عرب سےاپناپٹریاٹ ڈیفنس سسٹم ہٹا لیے بلکہ حوثی باغیوں کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیا۔  لیکن دیکھیں کہ پاکستان نے ہمیشہ اس معاملے میں بڑے محتاط انداز میں بیان دیے ہیں۔جب کبھی بھی ملٹری ٹو ملٹری حملے ہوئے پاکستان نے اس پر کھل کرکوئی بیان نہیں دیا لیکن جب کبھی سعودی عرب کے کسی گاوں پر حوثی باغیوں کی طرف سے حملہ کیا گیا اس پر پاکستان نے ہمیشہ مذمت کی ہے۔ اور ایسا ہرملک کرتا ہے اورکرنی بھی چاہیے۔

اس واقعہ کے بعد اب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے  یواے ای کے ولی عہد محمد بن زید کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے حوثی باغیوں کے حملے کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی گئی ۔ وزیراعظم عمران خان نے حملے میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کی اورزخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔

وزیراعظم نے یواےای کی قیادت ،حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا ہے اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی صورتحال میں سول تنصیبات پر اس طرح کےحملوں کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ان حملوں کو فوری طور پر بند کرنے پر زور دیا جارہا ہے اورعالمی برادری کو بھی ان کو فوری بند کروانے کے لیے اپنا کردار کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ حملے علاقائی امن و سلامتی  کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النہان نے حمایت کے بھرپور اظہار پر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا اور المناک واقعے میں پاکستانی شہری کے جان سے جانے پر افسوس اور تعزیت کا اظہار بھی کیا ہے۔

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں