پیر، 10 جنوری، 2022

افغان عوام کو بھڑکانےکی کوشش کرنےوالا افغانی پروفیسرطالبان کے ہتھے چڑھ گیا

افغان عوام کو بھڑکانےکی کوشش کرنےوالا افغانی پروفیسرطالبان کے ہتھے چڑھ گیا

اس وقت افغانستان کے اندر پاکستان کے ساتھ سرحد کو لے کراوردونوں ملکوں کے درمیان باڑکے مسئلے کو لے کرایک ڈیبیٹ چل رہی ہے ۔ اس معاملےکو لے کرافغان طالبان اور امارات اسلامی بھی مکمل طور پرمنقسم نظر آرہی ہے ایک حقانی گروپ جبکہ دوسرا کندھاری گروپ ہے اور کچھ بارڈر کے لوکل کمانڈرز ہیں اور ایک سینٹرل لیڈرشپ ہے جس کی بات نہیں سنی جارہی ہے لیکن اس سب کے اندر افغان طالبان پر ایک بہت بڑا الزام لگایا گیا ہے اور اس وقت ایک ایسے شخص کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جس شخص کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسے گرفتار اس لیے کیا گیا کیونکہ اس نے کابل میں ٹی وی پر بیٹھ کر پاکستان کے ساتھ بارڈرکو تسلیم کرنے کا کہا اس نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کچھ بھی نہیں ہے ۔اس وقت عالمی تنظیمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہندوستان ٹائمز، انٹرنیشنل میڈیا سے لے کرانڈین میڈیا اس پروفیسر کو ایک ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں آخر یہ کہانی کیا ہے یہ ماجرا کیا ہے اوراس شخص کی غلطی کیا ہے اور ذبیح اللہ مجاہد کو اس پرکیوں سٹیٹمنٹ جاری کرنی پڑگئی اس کا بھی جائزہ لیں گے۔

فیض اللہ جلال کابل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور تاجک النسل ہیں یہ افغانستان کے باشندے ہیں لیکن یہ پشتون نہیں ہیں یہ پچھلی حکومت کے بھی ناقد تھے اور موجودہ سیٹ اپ  پر بھی بہت زیادہ تنقید کرتےہیں اس پروفیسرکی گرفتاری  پر بہت زیادہ تنقید بھی ہو رہی ہے اور نیو یارک ٹائمز سے لے کر بڑے بڑے جریدےاورصحافی ان کے حق میں باتیں بھی کر رہے ہیں شریف الحسن جو کہ نیویارک ٹائمز کے لیے افغانستان میں جرنلسٹ ہیں ان کی ٹویٹ کے مطابق کہ انہوں نےامریکہ ،غنی  اورکرزئی پر بیس سال تک تنقید کی کچھ نہیں ہوالیکن طالبان کے خلاف ایک مرتبہ بولے اورگرفتار کرلیے گئے۔اب یہ معاملہ فرینڈآف ایکسپریشن یعنی آزادی اظہار رائے کا معاملہ بن چکا ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل آف ساوتھ ایشیاء کی ٹویٹ میں بھِی کہا گیا ہےکہ طالبان پر ٹی وی شو میں بیٹھ کر تنقید کرنے والے پروفیسرفیض اللہ جلال کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور انہوں نے اس کی بھرپورانداز میں مذمت کی ہے۔ ہندوستان ٹائمز کی ٹویٹ میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص کی گرفتاری آزادی اظہار رائے پر ایک حملہ اور طالبان کی جو عالمی امداد ہے اسکی کوششوں کوبھی سست کر سکتا ہے یہ ایک ٹیسٹ کیس بننے والا ہے۔

 پروفیسر فیض اللہ جلال استاد جلال کے نام سے مشہور تھے اپنی گرفتاری سے ایک دن پہلے انہوں نے طالبان کو یہ نصیحت کی کہ ڈیورنڈ لائن کوتسلیم کریں اور پاکستان کے ساتھ انٹرنیشنل بارڈرکو تسلیم کریں۔ ایک اور خبر کے مطابق اس نے طالبان پر تنقید تو کی ہی تھی اس کے ساتھ ساتھ طالبان کے انٹیلیجنس چیف کو بھی پاکستان کے پٹھو کہا،یہ  پاکستان کے آلہ کار ہیں کہ پاکستان کےہاتھوں میں کھیل رہے ہیں بارڈر پر جو معاملات چل رہے ہیں یہ صرف کھیل تماشہ ہے۔ پاکستان اور افغان طالبان مل کر دنیا کی نظروں میں دھول جھونک رہے ہیں یہ باتیں کی گئی ہیں جس پر ذبیح اللہ مجاہد  نے اپنی وضاحت جاری کی ہے اور کہا کہ ایک پاگل اور خبطی آدمی جس کا نام جلال ہے اسے گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو نظام کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا تھا اور اس نے کہا اس میں کسی شخص کی ذاتیات اور اس کی عزت کی  ہم تضحیک نہیں کرنے دیں گے ایسی باتیں  ہم کسی استاد کو بھی نہیں کرنے دیں گے اس شخص کو بھی اس کام کی اجازت نہیں ملے گی۔

اس پروفیسرنے کہا کہ افغانستان کی نئی طالبان حکومت افغان عوام کوگدھا سمجھتی ہے اور طالبان کے انٹیلی جنس چیف تو ان کے  پٹھو ہیں افغانستان کی پوری گورنمنٹ طالبان پاکستان کی پٹھو ہے۔ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ استاد جلال کی بیوی مسعودہ جلال افغانستان کی پہلی خاتون تھیں جوکہ افغانستان کی صدارت کی امیدواربھی تھیں ۔یہ بڑا بااثر شخص ہے یہ کوئی عام آدمی نہیں ہے اور اس کی گرفتاری کے حوالے سے بہت جلد عالمی میڈیا اور عالمی طاقتیں طالبان پران کی رہائی کے لیے پریشر ڈالیں گی البتہ طالبان کسی صورت میں بھی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں