اتوار، 13 فروری، 2022

میاں چنّوں واقعہ کیسے پیش آیا؟ مقتول کون نکلا؟ عینی شاہد نے سارا بھانڈا پھوڑدیا

 میاں چنّوں واقعہ کیسے پیش آیا؟ مقتول کون نکلا؟ عینی شاہد نے سارا بھانڈا پھوڑدیا

جانے کب کون کسے مار دے کافرکہہ کر

شہر کا شہر مسلمان بنا پھرتا ہے………….

ابھی سانحہ سیالکوٹ کی گرد بیٹھی نہیں تھی اور کس طرح سے ایک غیرملکی اور غیرمسلم فیکٹری منیجر کو ایک مشتعل ہجوم نے بے دردی سے قتل کردیا کس کے نام پر اس شخصیت کے نام پر جنہیں دونوں جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا یعنی رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرآگ لگا کر قتل کردیا۔ایسا مذہب جو کہ امن اورسلامتی کا مذہب ہے آج اس مذہب کے ماننے والوں نے خانیوال کے علاقے میاں چنوں میں ایک اور انسانیت سوز اور ایک ایسا واقعہ جسے دیکھ کر خود کو مسلمان نہیں بلکہ انسان کہتے ہوئے بطور معاشرہ شرم سے ہمارےسر جھک گئے ہیں اور یہ واقعہ کیا تھا اس حوالے سے بڑی اہم ترین تفصیلات آپ کے سامنے رکھوں گا یہ واقعہ کیسے پیش آیا عینی شاہد نے ایک نیا پنڈورا باکس کھولاہے اور اس کے علاوہ دوسرے عینی شاہد نے کیا کہا جس نے اس پورے معاملے کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ مقتول کی ابھی تک پہچان نہیں ہوپارہی تھی البتہ اس کی پوری تفصیل حاصل کی گئی جو آپ کے سامنے رکھنی ہے اور قرآن پاک  کو کس نے اور کیوں نظر آتش کیا اور کیوں شہید کیا اس حوالے سے کیا تفصیل ہے اصل حقیقت کیا ہے اور پولیس موقع پرکیا کرتی رہی یہ تفصیل بھی بہت اہم ہے کیونکہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس شخص کے مرنے سے پہلے پولیس وہاں پر موجود تھی وہ تمام تفصیلات بھی آپ کے سامنے رکھوں گا۔

 لیکن اس سے پہلے ایک بہت اہم تحریر ہے جو ہمارے معاشرے کی اس وقت اس سے بہتر نمائندگی نہیں کر سکتی وہ یہ کہ مسجد کے سپیکرپراعلان ہوا کہ فلاں شخص نے توہین رسالت کردی ہے اسے واصلِ جہنم کرنے کےلیے فوراً پہنچو اور فوراً جنّت کمائو۔ یہ سنتے ہی دودھ میں ملاوٹ کرنے والابھولاگجر جائے ،مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں ڈالنے والا علم دین پنساری،صاحب کو رشوت پہنچانے والا بابو چپڑاسی، ساری رات فحش فلمیں دیکھ کر ابھی سونے والا نوجوان سویٹی پرنس ،دھندہ کرنے والا ساقا کنجر اور گدھے کا گوشت بیچنے والا ماجھا قصائی یہ سب بغیر کوئی ثبوت مانگے گستاخ کو واصل جہنم کرنے چڑھ دوڑے اور یہی بدقسمتی سےانتہائی افسوس کے ساتھ اس معاشرے کی نمائندگی ہے۔

حالیہ واقعہ کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ  پولیس نے اس وقت ضلع خانیوال میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کا مقدمہ 35 نامزد اور تین سو نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ 62 ملزمان کوگرفتارکرلیا گیاہے۔پنجاب پولیس کے مطابق واقعے کی ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کردی گئی ہے اور پولیس نے ملزمان کو پکڑنے کے لیے رات گئے مختلف مقامات پر ۱۲۰چھاپے مارے ہیں اور دستیاب فوٹیجز اورفرانزک تجزیے کی مدد سے ملزمان کی شناخت کی جائے گی اور  پھر اس پورے واقعے کے اندران کا کردار کیا تھا  اس کا تعین بعد میں کیا جائے گا ۔پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیمیں اس وقت چھاپے مار رہی ہیں ۔ گزشتہ روز خانیوال میں مشتعل ہجوم نے مبینہ توہینِ مذہب کے الزام میں تشدد کرکے ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت نہیں ہو پا رہی تھی مگر اس کے حوالے سے تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں اس شخص کی شناخت مشتاق احمد ولد بشیر احمد کے نام سے ہوئی ہے وہ قریبی گاؤں 12چک کے رہائشی تھے اور ان کی میت ان کے سوتیلے بھائی نے وصول بھی کر لی ہے یعنی کہ لواحقین اس وقت سامنے آ چکے ہیں اور 12چک کے رہائشیوں نے بتایا کہ ملزم کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اوروہ کئی کئی دن گھر سے باہر رہتا تھا ۔ ذہنی توازن درست نہ ہونے کی بنا پر ان کی اہلیہ نے بھی چار سال قبل ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور بچے بھی اپنے ہمراہ لے گئی تھی۔

 وزیراعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی جانب سےقانون ہاتھ میں لینے کی قطعاً کوئی کوشش گوارا نہیں کی جائے گی اور پرتشدد ہجوم کو نہایت سختی سے کچلیں گے ۔ ان کا کہنا تھا میاں چنوں واقعے کے کون کون ذمہ دار ہیں ان کا تعین کیا جائےگا اور فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے یہ تفصیل بھی طلب کرلی ہے۔

تلمبہ پولیس سٹیشن میں اس واقعے کا مقدمہ ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے درج مقدمے میں انسپکٹر منظور حسین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جب ہمیں اطلاع ملی کہ ایک نامعلوم شخص نے قرآن کریم کو آگ لگا دی ہے توہم موقع پر پہنچے جہاں لوگ اکٹھے تھے اور نعرے لگا رہے تھے اور ایک نامعلوم شخص کو رسی سے باندھ کر تشدد پولیس نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بدستور ڈنڈوں اورچھڑیوں سے اس شخص کو مارتے رہے ملزمان کے تشدد نے مذکورہ شخص ہلاک ہو گیا تو اس کی لاش کو درخت سے باندھ دیا گیا علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ تحصیل میاں چنوں کا علاقہ سترہ موڑ جہاں پر یہ کل رات واقعہ پیش آیا اس میں ایک عینی شاہد ہیں نصیرمیاں جنہوں نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ شام کے وقت انہوں نے اچانک شور سنا وہ موقع پر پہنچا تودیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم اینٹوں اور پتھروں کی بارش کر رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ انتہائی مشتعل تھے میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اس شخص نے قرآن پاک کی مبینہ توہین کی ہے جس کے بعد اس شخص کی لاش کو اٹھا کر درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا پولیس موقع پر پہنچی تو مشتعل ہجوم نے پولیس پر بھی پتھراؤ شروع کردیا جس سے پولیس کے چار اہلکار معمولی جبکہ ایک شدید زخمی ہوا ۔ پولیس اور مشتعل ہجوم کے درمیان تصادم کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں ۔گزشتہ رات ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ علاقے میں شدید کشیدگی ہے لوگ پتھروں اورلاٹھیوں کے ساتھ مسلح ہیں جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی اس وقت موقع پر موجود ہے اس واقعے میں مقامی تھانے کے ایس ایچ او سید اقبال شاہ کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات بھی رات گئے موصول ہوئی ہیں۔نصیرمیاں نامی عینی شاہد   نے بتایا کہ تشدد کا نشانہ بننے والے شخص کی لاش کو پولیس کافی دیر بعد وہاں سے لے کر جانے میں کامیاب ہوئی.اس سے پہلےاس شخص کو علاقے میں کہیں نہیں دیکھا گیا لیکن کچھ لوگوں نےاسے بھیک مانگتے دیکھاتھا ۔اس شخص نے مسجد میں پناہ لے لی تھی ۔

 ایک اور عینی شاہد بزرگ کے مطابق وہ پولیس اسٹیشن میں کسی مقدمے کی تفتیش کے سلسلے میں تھانے میں بیٹھے تھے کہ میرے بیٹے نے مجھے فون کیا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا ہے اور اس نے قرآن مجید کو آگ لگا دی ہے جس کی وجہ سے مسجد میں دھواں ہی دھواں ہے ہم نے اسے پکڑلیا ہے آپ بھی جلدی پہنچیں۔ میں ایس ایچ او کے ہمراہ وہاں پہنچا اوراس کی حفاظت کےلیےاسے ایک کمرے میں بند کردیا اور باہر سے تالا لگا دیا۔جب میں وہاں پر پہنچا تو اس وقت ایک سو کے لگ بھگ لوگ وہاں جمع تھے اس کے بعد لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے شروع ہوگئےاور نعرے لگاتے ہوئے دھکے مار کرمسجد کا دروازہ توڑدیا اورکمرے کا تالا توڑ کر اس شخص کو نکال کر لے گئے ہیں میں اور ایس ایچ او ان کا منہ دیکھتے رہ گئے ہینں اور کچھ بھی نہیں کرپائے۔پولیس کے اہلکاروں نے اسے بچانے کی کوشش کی لیکن عوام کے سیلاب کے سامنے وہ بھی بے بس ہوگئے۔

 کب تک اس معاشرے کی بے حسی پرماتم کیا جاتا رہے گااور کب تک ایسے واقعات کو برداشت کیا جاتا رہے گا ۔ جب تک سٹیٹ  آہنی ہاتھوں سے ان ملزمان سے نہیں نمٹے گی تب تک قانون کو ہاتھ میں لینے والے ایسے شرمناک کام کرتے رہیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں