بدھ، 16 فروری، 2022

صحافت بمقابلہ عمران خان : محسن بیگ کی گرفتاری سے نئی جنگ چھڑ گئی

صحافت بمقابلہ عمران خان :  محسن بیگ کی گرفتاری سے نئی جنگ چھڑ گئی

ایک صحافی محسن بیگ جو کہ اس وقت سوشل میڈیا پر اور پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں اور ٹوکراصحافت کے علمبردار اور طبقہ ملامتیہ کے تمام تر جو صف اول کے سپاہی صحافی ہیں وہ انہیں آزادی صحافت کا، آزادی اظہار رائے کا سب سے بڑا چیمپئن بنا کر پیش کررہے ہیں البتہ یہ پورے کا پورا معاملہ، ان کی گرفتاری اور پھر ایف آئی اے میں ان کے خلاف کونسا مقدمہ درج ہوا اور اس کے بعد کس طرح سے ایک گھنٹے کا ایک پورا ڈرامہ رچایا گیا۔اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی بالی ووڈ کی فلم کی شوٹنگ ہے اور محسن بیگ صحافی نہیں بلکہ کھل نائیک کے روپ میں اپنا کردارادا کررہے ہیں اس حوالے سے بڑی اہم تفصیلات ہیں جسے آپ کے سامنے رکھوں گا ۔ اصل ماجرا کیا ہے اور محسن بیگ اصل میں کون ہیں ؟ کیوں ان کی کہی گئی بات حکومت کو اتنی کٹھک رہی ہے اور کیوں اس وقت عمران خان کا سب سے قریبی ساتھی ،دستِ راست اورقابلِ اعتماد صحافی آج حکومت کا سب سے بڑا مخالف بنا ہے اس حوالے سے وزیراعظم آفس کے ذرائع کیاکہتے ہیں اس کی تفصیل بھی آپ کے سامنے رکھوں گا۔ آرڈرز کہاں سے آئے ایک گھنٹہ کیا کچھ ہوتا رہا ہے کس طرح سے محسن بیگ نے پورے کا پورا عملہ یرغمال بنانے کی کوشش کی اور ان کے بیٹے کا اس میں کیا کردار ہے اور اس وقت اسے کیا رنگ دیا جارہا ہے جبکہ اصل ماجرا کیا ہے جبکہ یہ گرفتاری ایک گریٹر گیم اور ایک بڑی کارروائی کا آغاز بھی ہو سکتی ہے ۔ اس حوالے سے بھی تفصیل آپ کے سامنے رکھوں گا کہ اب سب کو حساب دینا ہوگا۔


 سب سے پہلے بنیادی خبر سے آغاز کرتے ہیں پھراندرکی کہانی پربات ہوگی۔ آج ایف آئی نےمحسن بیگ کو حکومت کی شکایت پر حراست میں لیا دورانِ گرفتاری ایف آئی اے کی ٹیم پرفائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے تفصیلات کے مطابق نجی چینل کے غریدہ فاروقی کےشومیں وزیراعظم اور وفاقی وزیر مراد سعید کے خلاف نازیبااور گھٹیا زبان استعمال کی گئی اوران پر ہم جس پرستی کا الزام لگایا گیا اورکہا گیا کہ مرادسعید کی وزارت کو پہلے نمبر پربھی اسی وجہ سے رکھا گیا ہے جس پر مراد سعید کی شکایت پر ایف آئی اے نے محسن بیگ کے گھرپر گرفتاری کے لیے چھاپہ ماراگیا۔ چھاپے کےدوران ایک گھنٹے تک مزاحمت اور فائرنگ کی گئی ۔ محسن بیگ نےپسٹل کا بٹ مارکر پولیس اہلکار زخمی کردیا۔ حراست میں لیتے وقت ہاتھ میں پستول بڑا واضح طور پر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔محسن بیگ کےبیٹے کی جانب سے پولیس اور ایف آئی اے کے ساتھ مزاحمت کی گئی ۔پولیس نے بتایا کہ ایف آئی اے ٹیم محسن بیگ کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر گئی دوران گرفتاری ایف آئی اے کی ٹیم سے ہوئی جس پر ملزمان نے فائرنگ کی ۔حکام کا کہنا تھا کہ محسن بیگ کے بیٹے کو حراست میں لینے کے لیے ٹیم گھر میں داخل ہوئی اورسرکااری ٹیم پر حملے کے الزام میں بیٹے کو بھی گرفتار کیا جائے گا ۔ اس وقت محسن بیگ کو تھانے منتقل کردیا گیا ہے جبکہ ان کا بیٹا اس وقت موقع سے فرار ہے اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا تھا کہ بڑاافسوسناک واقعہ ہے لیکن قانونی کارروائی کا جواب بدمعاشی سے نہیں دیا جا سکتا ۔ان کاکہنا تھا کہ محسن بیگ نے پستول تان کرٹیم کے لوگوں کو گھروں میں بند کرلیا جس پرمزید نفری منگوائی گئی۔جس کے بعدا سے گرفتار کیا گیا۔

 محسن بیگ عمران خان کے بہت قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھی ہیں یہ وزیراعظم کے جدوجہد کے دورکے ساتھی صحافی  میں سے ایک تھے۔یہ وزیراعظم  کے مشیر سمجھے جاتے تھے اتنا قریبی ہونے کی وجہ سے اوراتنا لمبا ساتھ دینے کی وجہ سے محسن بیگ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ کی بجائے پورے کا پورا نہانا چاہتے تھے۔ ذاتی فائدہ اٹھانے کی خاطر وہ کچھ روسی انویسٹرز کولے کروزیراعظم سے ملاقات کے لیے پرائم منسٹر آفس آئے۔وزیراعظم نے ملاقات کرلی ۔دراصل وہ ان انویسٹرکو ٹھیکے دلوانا چاہتے تھےاور ان کک بیک کمیشن کمانا چاہتے تھے جس پرعمران خان بڑے نالاں ہوئےجس کے بعد وزیراعظم کے حکم پر محسن بیگ کے نام پرکراس لگا دیا گیا ۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ یہاں پر مجھ سے کیا کروانے آ گیا ہے ۔ میں نے توبڑی سنجیدگی سے ان سے ملاقات کا ٹائم دیا اور ان سے بات کی کہ وہ فارن انویسٹر لا رہے ہیں جس سے پاکستان کو فائدہ ہوگا لیکن اس ملاقات کے پتہ چلا کہ یہ تو دونمبری مجھ سے کروانا چاہ رہا ہےاور ذاتی مفاد کو مقدم سمجھ کرپاکستان کے مفاد کو پسِ پشت ڈال رہا ہے  جس کے بعدمحسن بیگ نے اچانک رنگ بدلا اور وزیراعظم کے سب سے بڑے مخالف ہوگئے۔

اس وقت محسن بیگ کے خلاف  مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اورایف آئی اے کی پریس ریلیز اور موقف کچھ اسطرح سے ہےکہ آج مورخہ 16 فروری 2022بحوالہ ایف آئی آر نمبر34/22 تھانہ سائبر کرائم رپورٹنگ سنٹر لاہور شکایت کنندہ مراد سعید وفاقی وزیر،دفعات دی گئی ہیں۔ سیکٹرایف ایٹ اسلام اباد میں ملزم محسن بیگ کے گھر سائبر کرائم ایف آئی اے کی ریڈنگ ٹیم نے چھاپہ مارا۔ جس کے لیے قانونی طور پر مجاز عدالت سے سرچ اورسیزوارنٹ حاصل کیے گئے ۔چھاپے کے دوران ملزم محسن بیگ، ان کے بیٹے اور ملازمین نے ایف آئی اے ٹیم پرسیدھی فائرنگ کی اور 2 افسران کو یرغمال بنا کرزدوکوب کیا  جس کی ویڈیو ریلیز کی جارہی ہے گولیاں  ختم ہونے پرملزم کو گرفتار کرلیا گیا اور پولیس اسٹیشن مارگلہ اسلام آباد میں منتقل کیا گیا جس پر کاروائی تھانہ مارگلہ اسلام آباد کی جارہی ہے ۔ملزم محسن بیگ نے اپنے بیٹے اور دیگر ملازمین کے ہمراہ  سرکاری ملازمین پر حملہ اورفائرنگ کرکے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔جس طرح سے سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح  بدمعاشی اورکھل نائیک کے روپ میں محسن بیگ کیمرہ مین کی طرف پستول کررہے ہیں اس سے وہ کم سے کم صحافی تو نہیں لگ رہے بلکہ کسی بالی وڈ کی فلم کا سین قلمبند کروارہے ہیں.

فرض کریں حکومت نے زیادتی کی ہوگی، آزادی صحافت پر وارکیا ہوگا لیکن محسن بیگ کو اگر پولیس یا ایف آئی اے پکڑنے آگئی تھی تو وہ ساتھ چلے جاتے عدالتیں کس لیے ہیں لیکن انہوں نے سرکاری ملازمین پر گولیاں چلادیں۔اس مقدمے میں دہشگردی اوردیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمے میں اقدامِ قتل،حبسِ بیجا سمیت دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سیون بھی ان کے خلاف لگائی گئی ہے۔

 دوسری جانب سے عدالتی بیلف بازیابی کے لیے تھانہ مارگلہ پہنچا تو پولیس نے مقدمہ کی تصدیق کی عدالت بیلف نے مقدمے اور گرفتاری کی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے تھانہ مارگلہ پولیس نے ملزم محسن بیگ کو دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جہاں پر انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزم کا تین روزہ جسمانی دے دیا ہے۔ملزم محسن بیگ کی طرف سے جسمانی ریمانڈ کی جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مستردکردیا ہے۔ملزم کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ایف آئی اے میں بھی مقدمہ درج  ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب پولیس کی طرف سے محسن بیگ کے بیٹے کی گرفتاری کے لیے حکمت عملی تیار کرلی ہے ۔ایف آئی اے کی ٹیم میں موجود آفیسران جو وہاں پر موجود تھے انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ محسن بیگ کو فون کرکے انہوں نے باہر بلایا جس پر محسن بیگ نے کہا کہ واپس چلے جاؤ ورنہ تمہاری نوکری نہیں رہے گی تم ہوتے کون ہو؟ اس کےتھوڑی دیر بعد ملزم نےکچھ لوگ اکٹھے کیے گن پوائنٹ پر ایف آئی اے کے انسپکٹر اور لیڈ ی سب انسپکٹر کو یرغمال بنایا جب ہمیں سامنے دیکھا تو فائر کر دیا تو یہ اُس وقت کی تفصیلات ہیں جنہیں کسی طرح بھی سے چھپایا نہیں جاسکتا آزادی اظہار رائے میں مداخلت کے لیے جواز بناکر پیشں کیا جاسکتا ہے۔ آپ دیکھیں جس طرح سے وزیراعظم کی اہلیہ کے خلاف ایک گھٹیا ٹرینڈ چلانے والا شخص جس کا مریم نوازدفاع کررہی ہیں کو اس وقت گرفتارکیا گیا ہے اور قوانین موجود ہیں ان کا سہارا لینا چاہیے۔ باہرکسی اور ملک میں اگر کسی نےاس طرح سرکاری ملازمیں پا گولی چلائی ہوتی تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس وقت اس کا کیا حشر نشر ہوا ہوتا۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ صحافت کے نام پرکسی کے خلاف بھی گھٹیا زبان استعمال نہیں کی جانی چاہیےچاہے وہ نواز شریف ہوں یا مریم نواز ،بلاول بھٹوہوں یا عمران خان کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ذاتی مقاصد میں ناکامی پر ایسے اقدام اٹھائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں