اتوار، 20 فروری، 2022

جہانگیرترین کا تختِ عمران کوجھٹکا،اسٹیبلشمنٹ کا رول اہم،کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل

 جہانگیرترین کا تختِ عمران کوجھٹکا،اسٹیبلشمنٹ کا رول اہم،کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل

اس وقت "کپتان ہٹاو مہم" یعنی کہ پاکستان کی سیاست سے یا اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے حکومتی سسٹم  سے عمران خان کو مائنس کرنے کے حوالے سے مہم  اپنے عروج پر ہےاور بہت سی چیزیں اب سامنے آ رہی ہیں اوراپوزیشن جو پتے شو نہیں کررہی تھی اب اس نے وہ شوکرنے شروع کردیے ہیں۔ اورانہوں نے اپنی چالیں چلنا مزید تیز کردی ہیں اورلندن پلان کے بعد اب واشنگٹن پلان بھی سامنے آرہا ہےاوراس کے خدوخال بھی واضح ہورہے ہیں اس حوالے سےبہت سی تفصیلات بھی سامنے آرہی ہیں جوآپ کے سامنے رکھوں گا۔ عمران خان کو گھر بھیجنے کے اس وقت کون سے چار ایسے طریقے ہیں جن پر اپوزیشن اور بالخصوص نون لیگ اور ان کے حامی صحافی پورے کا پورا طبقہ ملامتیہ اور ٹوکرا صحافت کے سارے علمبرداران  چارطریقوں کی طرف دیکھ رہے ہیں انہیں کیا لگتا ہے ان کے اندر کی بات کیا ہے اسے بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

اِن ہاوس تبدیلی میں اس وقت جہانگیر ترین کی بڑی اہم ترین اورتشویشناک ترین تفصیلات ہیں جو منطرعام پر آرہی ہیں اور اندر کی بات یہ ہے کہ حکومت کے بڑے اہم ترین ارکان جو  کہ وزیراعظم کے بڑے قریبی سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اب گھبرانا شروع ہو چکے ہیں ۔

کیونکہ جہانگیرترین کی کل تو شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کا انکشاف ہوا تھا لیکن آج ایک اور انکشاف ہوا ہے جس نے چیزوں  کو بڑا واضح کر دیا ہے اورکیا حکومت کے لئے پریشانیاں بڑھ سکتی ہے اور اس کے اندراب میڈیاکا کردار کیا ہےاور امریکی سی آئی اے کا کردار کیا ہےاس حوالے سے بھی بحث کریں گے ۔دوتین چیزیں ہیں جنہیں بہت زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے ایک تو یہ کہ پاکستان کے اندر ملٹری اسٹبلشمنٹ اور پھر سیاست کے اندر پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار یا پھر اس سے بھی بڑھ کرجوسیاستدانوں کی طرف سے ایک احساس دلایا جاتا ہے  کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ ہی تو سب کچھ کر رہی ہے اور وہی حکومتیں بناتی ہےوہی حکومتیں گراتی ہے اور بہت سی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو صرف اور صرف اپنی سیاسی گیم کی خاطر اداروں کو بد نام کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور لوگوں میں اس بات کا احساس پیداکرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

کیا سیاست کے اندر اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے تواس کا جواب ہے کہ "بالکل ہے"اور کیا یہ کردار اس قدر ہے جس قدر فوج مخالف یا پاکستان مخالف جماعتیں کہتی ہیں تواس کا جواب " نہی"' ہے۔ اب عمران خان کی پوزیشن آپ سمجھیں عمران خان کے لیے اس وقت جو صورتحال بڑی گھمبیرہے کیونکہ ایک تو عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص اجاگر کرنے کی اسےسزا ملنی ہے اورتاریخ گواہ ہے جس نے بھی امریکہ یا عالمی طاقتوں کو آنکھیں دکھائیں انہوں نے اس لیڈر کو نشان عبرت بنایا ہے اور اگر وہ اس لیڈرکو نشان عبرت نہیں بناتے جوان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جو انہیں انکار کرے اورجومغربی بلاک کو جوتے کی نوک پر رکھے تو پھر ان کا جو ایک جھاکا یا ڈر ہے وہ سب کا کھل جاتا ہے اورختم ہوجاتا ہے۔ اورانہیں لگتا ہے  کہ اگر اسے نشانہ عبرت نہ بنایا ہے اس کے خلاف کچھ نہ کیا تو آنے والے چند سالوں کے اندر مختلف ملکوں کی حکومتیں حتّٰی کہ چھوٹے ملک بھی آنکھیں دکھائیں گے ہمیں تو ہرشخص کی ایک مثال بنانی ہوگی تاکہ آئندہ ہمارے خلاف اور عالمی طاقتوں کے خلاف کوئی بولنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے۔

اب اس وقت جن چیزوں کے بارے بحث چل رہی ہے وہ یہ ہے کہ میڈیا ہاوسز کے ساتھ نہ صرف سی آئی اے کے اہلکاروں کی ملاقاتیں ہوئی ہیں بلکہ انہیں امریکی قونصلیٹ کراچی  اور اسلام آباد میں موجود ایمبیسی میں مدعو کیا گیا ہے اوراس پوری کمپین میں فرنٹ مین کی طور پر میڈیا ہاؤسز کے مالکان سامنے آرہے ہیں ایک یا دو کے حوالے سےخبر ہے کہ وہ اس وقت حکومت کے خلاف فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنا چاہتے ہیں اس کے لیے ظاہری بات ہے  بڑے پیمانے پرفنڈنگ بھی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے تین چار چیزیں ڈسکس ہو رہی ہیں اور عمران خان کو گھر بھیجنے کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں کے چار طریقے کیا ہے جو یہ سوچ رہے ہیں جن کے ذریعے پرائم منسٹر آف پاکستان گھر جا سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے میں آپ کو یہ بتاؤں کہ ان ہاؤس تبدیلی کے معاملے پر کچھ بہت بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔  زرداری اور فضل الرحمان توساتھ بیٹھنے پر راضی ہو گئے اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان بھی ملاقات طے پاگئی ہے ۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر بڑی پیش رفت ہوئی ہے جہاں آصف زرداری کل پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ان کے گھر پرملاقات کریں گے  جس میں ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور فضل الرحمان آصف زرداری کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے۔تو ان کے درمیان جو برف ہے وہ پگھل رہی ہے اس  اہم ترین ملاقات میں سیاسی رابطوں ،تحریک عدم اعتماد اورحکومت مخالف تحریک کو موثر کیسے بنانا ہے اس کا ایجنڈا بھی ڈسکس کیا جائے گا ۔اس کے ساتھ ساتھ کل ایک خبر سامنے آئی جس نے حکومت کو کافی ہلا کر رکھ دیا  اور وہ یہ تھی کہ اپوزیشن لیڈر اور نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جن کی جیب میں ایک بہت بڑی تعداد میں ارکان ہے جو کہ حکومت کو گرانے میں سب سے اہم ترین حکم کا اِکّا ثابت ہوسکتے ہیں یعنی جہانگیر ترین سے  ملاقات کی ہے اوریہ خفیہ ملاقات ہوئی ہے۔باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ کہ چند روز قبل دونوں رہنماؤں نے عمران خان حکومت اور اس کی قسمت کے حوالے سے بات چیت کی رابطہ کرنے پر جہانگیر ترین نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر کوئی بیان نہیں دیا اور کوئی موقف پیش نہیں کیا۔

البتہ جہانگیرترین نےشہباز شریف سے ملاقات کی تصدیق یا تردید کے بغیر اپنے گروپ میں  شامل ارکان قومی اسمبلی کی طرف سے انہیں کوئی بھی سیاسی فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ دیے جانے کا کہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیاستدان کی حیثیت سے وہ دیگر سیاستدانوں کے ساتھ رابطوں پر یقین رکھتے ہیں اور ایسے رابطے سیاست کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اس سب کے اندر ایک اور خبر سامنے آئی ہے اور وہ ہے کہ ملکی سیاست میں اب تک کی سب سے بڑی ہلچل جہانگیر ترین اور بلاول بھٹو کے درمیان ملاقات کا انکشاف ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع نے یہ ملاقات کنفرم کہ جہانگیر ترین نےبلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات کی تاہم حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر تاحال آمادگی ظاہر نہیں کی لیکن جہانگیر ترین نےفیصلے کے لیے آئندہ ہفتے کا وقت مانگا ہے۔یہ ملاقات  دو روز قبل لاہور کے اندرخفیہ مقام پر ہوئی۔ اور گفت وشنید کےبعد "ہاں" اور "ناں" کے بعداب بات "چلو دیکھتے ہیں" پر آکر رکی ہے اور یہ اس وقت بڑی پیشرفت ہے کیونکہ ریٹ لائٹ کے بعد ڈائریکٹ گرین لائٹ نہیں آن نہیں ہوتی بیچ میں ییلو ضرور آتی ہے۔اس پر ہماری اس وقت اطلاعات یہ ہیں کہ  پی ٹی آئی اس وقت لازمی طور پر پریشان بھی ہے اور جہانگیر ترین کو بیک ٹو بیک اپوزیشن کی طرف سے اپروچ بھی کیا جا رہا ہے حکومت اس کا سدباب کرنا چاہتی ہے حکومت کو پریشان ہونا بھی چاہیے ۔

اب اپوزیشن یہ سوچ رہی ہے کہ چار طریقے ہیں ایک تو عمران خان کی ساکھ کو میڈیا وارکے ذریعے اتنا متاثر کیا جائے کہ عمران خان کے لیےحکومت کرنا اور عوام میں جانا ناممکن ہو جائے۔دوسرا ان کا آپشن یہ ہے کہ عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس میں نااہل کروایا جائے جس کا مارچ میں فیصلہ ہونا ہے اور عمران خان کے نا اہل ہونے سے نوازشریف کے ساتھ اسکور بھی برابر ہوجائے گا  اور ایک طرح سے بدلہ بھی لے  لیا جائے گا تیسرا طریقہ ان کے ذہن میں یہ ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتے ہیں اور چوتھا طریقہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے حامی اور حکومت مخالف صحافیوں کا یہ سمجھنا ہے کہ چونکہ ملٹری اسٹبلشمنٹ عمران خان کے اوپر سے ہاتھ اٹھا چکی ہے اب عمران خان آرمی چیف کو قبل از وقت تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے جس طرح نواز شریف نے جنرل مشرف کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد نواز شریف کی حکومت چلی گئی تھی تو ہوسکتا ہے عمران خان اپنی پسند کا چیف لانا چاہے اور اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ

ع      ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پہ دم نکلی

 حقیقت یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے لیے مشکلات بہت زیادہ بڑھیں گی کیونکہ عالمی طاقتیں بھی اس  جنگ میں عمران خان کے خلاف ہو چکی ہیں اپنے نہیں پرائے  نہیں سب کے سب  اس جنگ میں عمران خان کے خلاف ہوچکے ہیں اور عمران خان کو گھر بھیجنے کے لیے یکجا ہوچکےہیں۔اب دیکھیے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں