اتوار، 6 فروری، 2022

عمران خان کےدورہ چین اورمستقبل کی پلاننگ سے بھارت پریشان

 عمران خان کےدورہ چین اورمستقبل کی پلاننگ سے بھارت پریشان

وزیراعظم عمران خان چین کادورہ ختم کرکے واپس پاکستان پہنچ گئے ہیں یہ دورہ چین ،پاکستان اوراس خطے کےحوالے سے بڑااہم دورہ تھا۔ جس طرح اس خطے کی جغرافیائی سیاسی صورتحال بن رہی ہے اور نئے معاہدے ہورہے ہیں۔دنیا جس طرف انگڑائی لے رہی ہے اس میں یہ بہت ہی اہم چیزیں تھیں۔پاکستان کوئی بہت بڑااسٹیک ہولڈرنہیں ہے اور نہ ہی یہ بہت بڑا ملک ہے نہ ہی ہماری معیشت بہت بڑی ہے لیکن شاید دنیا کے لیے اس دورے کی اتنی اہمیت نہ ہو لیکن پاکستان کے لیے بہت زیادہ تھی اگر اس دورے کی تکلیف تھی تو وہ صرف دو جگہ پرتھی ایک انڈیا میں ہوئی کیونکہ انڈیا کی اسٹیٹس پالیسی ہے کہ پاکستان اورچین کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دینا ان کے درمیان رکھنا ڈال کر رکھنا ہے وہ چین کے مفادات کو پاکستان میں ٹھیس پہنچاتے  ہیں تا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات خراب ہوں اور اسی طرح پاکستان کو چین سے دور رکھنے کے لیے دیگر اقدامات بھی کرتے رہتے ہیں یا تو تکلیف بھارت میں تھی یا پھر پاکستان میں کچھ ایسے لوگ جن کو عمران خان صاحب سے تکلیف ہے وہ بےچارے شدید تکلیف میں مبتلاتھے ایک ایک فوٹو پرآ آ کر کمنٹ کررہے تھے ایک ایک چیزپرکمنٹ یہاں پریہ کیوں نہیں ہوا یہاں پر یہ چیز کیوں نہیں ہوئی ان کی حالت پر رحم آرہا تھا اچھے خاصے پرویز رشید  منجھے ہوئے اور پرانے سیاستدان ہیں ان کے ٹوئٹر ہینڈل پرنظرپڑی تو ان پرترس آ رہا تھا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے سٹھیا گئے ہیں۔ بہت سارے لوگ بہت پریشان  اور اپنے لیول سے نیچے جا کر کام کر رہے تھے۔

اس دورے  کے اندر کچھ  چیزیں بہت اچھی تھیں اور کچھ چیزوں کے اوپرتنقید کی بھی جا سکتی ہے لیکن آنے والے وقت میں اس کے نتائج بتائیں گے کہ کیا اچھا ہوا اور کیا برا ہوا چین نے ونٹر اولمپکس کے اس ایونٹ کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹوکے ایک پروجیکشن کے طور پریا اس کو آگے بڑھانے کے فائدے کے لئے استعمال کیا ہے اور یہی وہ چین کا منصوبہ ہے جو چین کو سپرپاوربنائے گا یہی وہ منصوبہ ہے جو چین کو دنیا میں آگے لے کر جائے گا ۔اس ایونٹ میں جو اہم ترین ممالک  شامل ہوئے ہیں جن کی چین کو ضرورت ہے اس میں روس اورپاکستان کے علاوہ سنٹرل ایشیاء کے پانچ بڑے ممالک جن میں کرغزستان ،ازبکستان ،تاجکستان ،ترکستان اورقازقستان کا شامل ہونا چین کے لیے بڑااہم تھا۔ایران اورترکی بھی شامل ہوئے انہوں نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ پھرعرب ممالک کی طرف جائیں توقطر،سعودی عرب اور یواےای کا اس میں شامل ہونا انرجی کے پوائنٹ آف ویو سے بڑا اہم ہے۔چین سعودی عرب کے تیل کا سب سے بڑاخریدار ہے سعودی عرب  چین کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔اسی طرح چین قطر کی گیس کا  بہت بڑاخریدار ہے وہ بھی آئے ۔ پھریواے ای میں چین کا بزنس ماڈل  سب سے کامیاب ترین بزنس ماڈلز میں سے ایک ہے اس لیے وہ بھی بائیکاٹ نہ کرسکے اور اس ایونٹ میں شرکت کی۔ تواس طرح مڈل ایسٹ میں بھی اور ساتھ ہی ساتھ لاطینی امریکی ممالک اور یورپی ممالک میں سے ثانوی درجے کے ممالک نے بھی بائیکاٹ نہیں کیا۔ لیکن انہوں نے کووڈ کو بہانہ بناکر شرکت بھی نہیں کی۔


لیکن آپ دیکھیں کہ چین نے کیا کیا ہے مڈل ایسٹ ،سنٹرل ایشیاء اور ساوتھ ایشیاءکو اکٹھا کیا یہ جتنا بھی ان کا پروگرام تھا یہ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کے جڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی وقت ہے جیسا وقت یورپ پر آیا تھا اس وقت جب یورپین اکٹھے ہورہے تھے اوروہ اپنے منصوبے بنا رہے تھے کہ مل جل کر معیشت کے لیے کام کریں معیشت کو بہتر کرے اور یہاں کے لوگوں کی ترقی کے لئے رستے کھولیں ۔ یہ اب ویسا ہی وقت اس خطے پر آیا ہے سب کو اس میں حصہ لینا چاہیے پاکستان بھی اپنا حصہ لینے گیا تھا پاکستان نے کیا لیا اس پر بات کریں گے لیکن اس خطےمیں ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنے آپ کواس سے باہر رکھا اور وہ ملک بھارت ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ یا تو وہ فیصلہ نہیں کر پا رہےیا بھارت فیصلہ کرنا نہیں چاہتا ایک طرف بھارت چین کے خلاف امریکہ کی مدد چاہ رہا ہے لیکن اگر غور کریں کہ جب امریکہ کواقوام متحدہ میں روس کے خلاف  بھارت کی مدد چاہیے تو بھارت نے امریکہ کے حق میں ووٹ نہیں کیا اور اپنے آپ کو اس سے باہر نکالا تو امریکہ کو بھارت نے ویسے تو پیٹھ دکھائی ہے اور دھوکہ دیا ہے۔ بھارت روس کے ساتھ تعلقات بگاڑ بھی نہیں سکتا ہےوجہ ہے کہ ائیرڈیفنس سسٹم ایس ۴۰۰ جو بھارت کا آج تک کا سب سے اہم  اور سب سے جدید ہتھیار ہے وہ روس سے ہی لے رہا ہے۔ چین کے ساتھ انہوں نے بگاڑی ہے اوراب بھارت یہ چاہتاہے کہ چین کے خلاف امریکہ اس کی مدد کرے لیکن روس کے خلاف بھارت کو امریکہ کی مدد نہ کرنی پڑے تو یہ ون وے ٹریفک نہیں چلتا میرے خیال میں بھارت کو فیصلہ کر لینا چاہیے پاکستان نے مبینہ طورپر اربوں ڈالر کے فوائد حاصل کیے جو حکومت کہہ رہی ہیں اس کی تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ سی پیک میں پہلے سڑکیں بن رہی تھیں یہی توانائی کے منصوبے بن رہے تھے اور اب سی پیک میں صنعتی زون کا قیام ہو رہا ہے ۔چار صنعتی زون بنائے جا رہے ہیں اور ان میں سےایک خیبرپختونخواۃ کے علاقے رشکئی میں بن رہا ہے دوسرا پنجاب میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی یہ فیصل آباد میں بن رہا ہے بلوچستان میں بوسٹن اسپیشل اکنامک زون پشین میں بن رہا ہے جبکہ سندھ میں دھب جی ٹھٹھہ کے مقام پر بن رہا ہے وزیراعظم عمران خان نے چینی صدر اور وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے کشمیر کے اوپرانہوں نے پاکستان کو حمایت کا یقین دلایا ہے  جبکہ پاکستان نے تائیوان اور ہانگ کانگ کے معاملے پر چین کے موقف کی تائید کی ہے اورحمایت کا یقین دلایا ہے ۔

چاراکنامک زون جن کا ابھی ذکر ہوا ہے ان میں سے تین پر تو بڑا اچھا کام چل رہے ہیں لیکن سندھ کا ٹھٹھہ والا اکنامک زون ہے جس کو تیار ہونا ہے اس میں کام نہیں ہو رہا ہے لیکن کتنی بدقسمتی ہے  عمران خان صاحب نے تینوں کی تفصیلات دی ہیں لیکن ٹھٹھہ میں کام نہیں ہورہا ہے بلکہ زمین کی پرچیزنگ  تاخیرکا شکار ہے وجہ کیا ہے ؟ کیونکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اوروہ کرتے کیا ہیں ؟ وہ سب سے پہلے جہاں پر کوئی چیزبننی ہوتی ہے وہ زمینیں سب سے پہلے وہاں کےوڈیرے ،وہاں کے سیاستدان، ان کے بیٹے،ان سیاست دانوں کے رشتہ دار،بیوروکریٹس اوران کے رشتےدارخریدتے ہیں ، اپنے نام کرواتے ہیں اور پھر وہ زمین سرکار کو بیچتے ہیں تاکہ زیادہ منافع کماسکیں۔ اس لیے سندھ کا اکنامک زون تاخیر کا شکار ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں