پیر، 14 مارچ، 2022

عدم اعتماد پر ووٹنگ کی تاریخ میں تاخیرکی وجہ سامنے آگئی

 

عدم اعتماد پر ووٹنگ کی تاریخ میں تاخیرکی وجہ سامنے آگئی

عدم اعتماد،عدم اعتماد بالآخر عدم اعتماد کی تاریخ دے دی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ڈی چوک پر جلسے کی تاریخ بھی دے دی گئی ہے 27 مارچ کو ڈی چوک پر جلسہ ہوگا اور 28 یا 29 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی اس  پر بہت زیادہ بات ہورہی ہے کہ اگر حکومت پراعتماد تھی تو اوآئی سی کے اجلاس سے پہلے یہ کرلیتی اور بہت زیادہ تجاویز تھیں کہ تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ اوآئی سی سے پہلے کروا دی جائے کیونکہ یہ بہت زیادہ خیال تھا کہ اگرعدم اعتماد اوآئی سی کے بعد جائے گی تو پاکستان میں مسلسل میڈیا پریا پورے ملک کے اندر اسی کے اوپربحث جاری رہے گی اوراوآئی سی کے ایونٹ پرزیادہ فوکس نہیں رہے گا اور اگر عدم اعتماداس سے پہلے ہو جائے گی اورنا کام ہو جائے گی جس پر حکومت پراعتماد ہے توپھر یہ خطرہ نہیں ہوگا اورساری توجہ اوآئی سی پر ہوگی ۔لیکن آپ کو بتاوں کہ اس معاملے میں کورکمیٹی کےاجلاس کی اندرونی کہانی میں کیا ہوا ہے اورکیوں یہ عدم اعتماد کی تاریخ کو ۲۸ تک لے گئے ہیں۔حالانکہ قانونی ٹیم تو بڑی پراعتماد تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ اجلاس فوری بلائیں بلکہ جمعہ یا ہفتے والے دن ووٹنک کراکراس چیپٹرکو بندکردیں۔

آج کورکمیٹی کے اجلاس میں مشاورت ہوئی جس میں ایک بڑی وجہ سامنے آَئی ہے کہ یہ جو دوتین جلسے ہوئے ہیں خاص طور پر آخری جو دو جلسے ہوئے ہیں اس میں عوام کی طرف سے عمران خان کے جلسوں میں جس شرکت اور پذیرائی  کا مظاہرہ کیا گیا اورجس طرح سے عمران نے تقاریر کی ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے سیاسی بیانیے کی آگ بھڑکادی ہے اوراپوزیشن عمران خان کے اس سیاسی بیانیے کی آگ کو ایندھن فراہم کررہی ہے کہ ایک طرف عمران خان ڈنکے کے چوٹ پر کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کی غلامی اختیار نہیں کریں گے مغرب کی بات نہیں مانیں گے پاکستان کے مفادات پرکوئی کمپرومائز نہیں کریں گےکسی کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے ۔دوسری طرف اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ عمران خان تو مغرب کے ساتھ براسلوک کررہا وہ تو امریکہ کے ساتھ بھی بڑی بدتمیزی کررہا ہےہم بھی امریکہ کے خلاف بات کرتے ہیں اس طرح اپوزیشن امریکہ اور یورپ کے ترجمان بن کے سامنے آگئے ہیں اب تو پاکستان کے اندراپوزیشن کے اپنے حامی بھی کہنے پر مجبورہوگئے ہیں کہ عمران خان توکہہ رہا ہے کہ  پاکستان کے مفاد پرکمپرومائز نہیں کروں گا۔۲۲ یورپی ممالک نے پاکستان کو خط لکھا ہے جس پر عمران خان نے جلسے بھی آکران کو آڑے ہاتھوں لیا۔ڈرون حملے کا کہہ دیا کہ اگر ڈرون حملہ ہوگا تو ہم گرادیں گے۔دوسری طرف سے یہ اپوزیشن والے امریکہ کے ترجمان بن گئے ہیں انہیں امریکہ اوریورپ کی ساکھ اورعزت کی فکر پڑگئی ہے۔ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہودیوں کے ساتھ بدتمیزی کررہا ہے۔ان کی کونسی بات مانی جائے ایک طرف کہتے ہیں کہ ان کو بیرونی اسٹیبلشمنٹ لائی ہے دوسری طرف کہتے ہیں کہ بیرونی اسٹیبلشمنٹ کو یہ آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔

اس سے تحریک انصاف کو بہت فائدہ ہورہا ہے اورتحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ خاص طور پریہ جو دو جلسے آخری ہوئے ہیں اس میں ان کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ہے اورتحریک انصاف کا یہ خیال ہے  آج کل ہرشخص جاننے کے لیے بے تاب ہے کہ عدم اعتماد کا کیا بنے گا کیا عمران خان رہے گا یا اپوزیشن اسے گھر بھیج دے گی چونکہ ریٹنگ بہت بڑی ہوئی ہے ایک طرف پی ڈی ایم کا جلسہ ہوتا ہے اور ۱۱ پارٹیوں کے سربراہاں  عمران خان کے خلاف تقریریں کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اکیلا عمران خان ان کے خلاف تقریرکرتا ہے اوران کو ناکوں چنے چبوادیتا ہے اس طرح سارافوکس عمران خان پر ہے چاہے اس کے مخالفین ہوں چاہے حامی ہوں سب عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اوریہ ایک ایسا موقع ہے کہ ہربندہ عمران خان کی تقریرپہلے لفظ سے لے کرآخری لفظ تک انتہائی غور سے سن رہا ہے ایک ایک لفظ پر بحث ہورہی ہے جس طرح  "ںیوٹرل " لفظ ہے جس پر بحث  آج کل جاری ہے۔جبکہ ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ اسی طرح اگر آپ کو لگتا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف جیسا کوئی لیڈر نہیں ہے اور انہوں نے ملک کی بڑی خدمت کی ہے اوراسی طرح مولانا فضل الرحمن سے بڑا کوئی اسلام کا ٹھیکے داریا خادم نہیں ہے تو آپ کومولانا صاحب یا نواز شریف اورزرداری کے ساتھ دینا چاہیے لیکن اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ میں بہتر کر رہا ہوں میں پاکستان کی خودداری پرکام کرنا رہا ہوں پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی پر کام کررہا ہوں اور اس پرکوئی کمپرومائز نہیں کررہا تو پھرآپ کو میراساتھ دینا چاہیے عمران خان نے کہا کہ نیوٹرل نہیں یا اپوزیشن کی طرف یا میری طرف ایک طرف آپ کو جانا چاہیے۔ دوسرا وہ میڈیا کے بارے میں بار بار کہتے ہیں کہ میڈیا ان لوگوں کو پروگرامز میں بلاتا ہی کیوں ہے جن پرکرپشن کیسز ہیں یا جن پرکرپشن ثابت ہوچکی ہےاور وہ عدالت سے  نااہل ہوچکے ہیں اورعمران خان بارباریہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے ۱۶ اینکرزاٹھ کے عدالت چلے گئے تھے کہ  نواز شریف کی تقریرپر پابندی ختم کریں توعمران خان اس تناظر میں" نیوٹرل" والی بات کررہے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کو 28 تک لے جانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ عمران خان مزید کچھ جلسے کرلیں جس میں اپنے کارکردگی اوراپنے سیاسی بیانیہ کو مزید لوگوں تک پہنچا لیں۔ نمبرگیمز کے حوالے سے بھی آج کے کورکمیٹی اجلاس میں  عمران خان نے بتایا کہ تمام اتحادی ہمارے ساتھ ہیں  اوروہ کہیں نہیں جارہے ہیں ۔ اور آج حکومت کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے بھی کوئی خاص اعلان نہیں ہوا جبکہ یہ کہا جارہا تھا کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں آج پریس کانفرنس کرکے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کریں گی۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔دوسری طرف علیم خان بھی نوازشریف سے ملاقات کرکےاتنے شرمسارہیں کہ وہ   میڈیا کے سامنے نہیں آرہے ہیں جواس طرح سے ایکٹو ہوئے تھے جیسے کہ انہیں وزیراعلٰی پنجاب کے لیے نامزد کردیا گیا ہے اورابھی حلف اٹھانا باقی ہے تو علیم خان ابھی تک منظرعام پرکہیں بھی نہیں ہیں اور انہوں نے جو خبرچلوائی تھی کہ میں نوازشریف سے نہیں ملا وہ تو جھوٹی ثابت ہوچکی ہے۔ جبکہ ن لیگ نے بتا دیا ہے کہ علیم خان نوازشریف سے ملے ہیں وہ ملاقات کے لیے چور دروازے سے داخل ہوئے ہیں اورچھپ کے ملے ہیں ۔

تاریخ آگے بڑھانا اس لیے ضروری تھا کہ 22 کو اوآئی سی کانفرنس ہورہی ہے اوراگریہ 18کو تحریک عدم اعتماد کے لیے اجلاس بلاتے ہیں تو اس دن ایک رکن قومی اسمبلی کی وفات پر تعزیت کی کارروائی ہوگی اور پھر اس کے بعدعدم اعتماد کی ووٹنگ کے لیے ٹائم تھوڑا رہ جائےگا اورتحریک انصاف نے ووٹنگ سے پہلے ڈی چوک پر جلسہ بھی کرنا ہے اور پھر سیکیورٹی کے خدشات بھی ہیں اس لیے تحریک انصاف اوآئی سی پہلے ایساکوئی سیکیورٹی رسک نہیں لینا چاہتی۔اس لیے اس تاریخ کو آگے بڑھایا گیا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں