عدم اعتماد ناکام بنادی جائیگی،قانونی راستہ نکل آیا،باغی ارکان فارغ،طریقہ کارطے
تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کو
جن ارکان نے چیلنج کیا ہے ان کا مقابلہ کیسے کیا جائے وزیراعظم عمران خان ہتھیارڈالنے
کے لیے بالکل تیار نہیں اورنہ ہی وہ کوئی اور اقدام کرنا چاہتے ہیں بلکہ پہلا آپشن
یہی ہے کہ اس تحریک عدم اعتماد سےآئینی اور قانونی طریقے سے کیسے نمٹا جائے اور اب جبکہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ جو کہ تحریک
انصاف کے ٹکٹ پربلّے کے نشان پر منتخب
ہوکے آئے اور جو پارٹی ڈسپلن کی پابند ہیں وہ ان کو چیلنج کر رہے ہیں اوران میں دس
بارہ ارکان اب کھلے عام منظرِعام پر آگئے ہیں اوروہ کہہ رہے ہیں کہ جناب ہم اپنے
ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے اور وہ پارٹی کے ساتھ بھی رابطے میں نہیں ہیں اورنہ ہی
پارٹی کے ساتھ رابطہ کرناچاہتے ہیں۔ اسی طرح
سے جہانگیر ترین گروپ ہے وہ بھی پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہے اور ان کی
بھی اچھی خاصی تعداد ہے وہ بھی ارکان قومی اسمبلی
یا صوبائی اسمبلی ہیں وہ بھی وزیراعظم
عمران خان کو چیلنج کر رہے ہیں ۔اب جہانگیر ترین اور ان کے گروپ کے لوگوں نے بھی پاکستان تحریک
انصاف سے رابطے منقطع کر دیے ہیں گورنر
سندھ عمران اسماعیل جہانگیر ترین سے رابطہ کرنے کے لئےفون کرتے ہیں ان کوجواب ملتا ہے کہ وہ دستیاب نہیں ہیں نہ ہی
وہ پاکستان آ رہے ہیں اسی طرح علیم خان سے
بھی گورنرسندھ کی ایک ملاقات ہوئی اور اس کے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی یہ سارے
مسائل ہیں ۔
آئین اس میں بڑاواضح ہے اور جب یہ لوٹاکریسی شروع ہوئی
تھی تب آئین میں مزید تبدیلیاں کی گئی تھیں اور پارٹی کے سربراہ کو لامحدود اختیارات
دے دیے گئے تھے کہ اگر کوئی رکن فلورکرسنگ کرے گا روک لو کو سنبھال لے گا تو اس کے
بارے پارٹی سربراہ اسپیکر کو لکھے گا اور اسپیکر الیکشن کمیشن کو کہہ دے گا اور اس
میں اس کو ڈی سیٹ کردیا جائے گا یہ آئین اور قانون ہےلیکن اب اس پرغورہورہا کہ ان
کوآئینی اورقانونی طریقے سے روکا کیسے جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اب تک بے شمار
اجلاس بلائے ہیں جن میں ان کی قانونی ٹیم، وزیر قانون فروغ نسیم ، اٹارنی جنرل
خالد جاوید کے علاوہ بابراعوان، علی محمد خان ،شیخ رشید ،شاہ محمودقریشی
،فوادچوہدری اوردیگراراکین شامل ہوچکے ہیں ۔
سب
سے پہلے آئین کا آرٹیکل ۶۳
ون اوربی دونوں میں فلورکراسنگ مکمل طور پربین ہےلیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پہ عمل
درآمد کے لئے وہ کہتے ہیں کہ جب جرم ہو جائے تب اختیارات شروع ہوتے ہیں پہلے کوئی
کارروائی نہیں کر سکتے اورروک نہیں سکتے اور یہ ابہام موجود ہے آئین کسی بھی رکن
قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سےمنع نہیں کرتا ہے ۔اب اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان
نے وضاحت جاری کردی ہے کہ ہمارا کام شروع تب ہوگا جب تحریک عدم اعتماد پر کام ہو
چکا ہو گا اور جب کوئی لوٹاکریسی کرے گا تو اس وقت جو بھی پریذائیڈنگ افسر یا اسپیکر
قومی اسمبلی ہوگاوہ ہمیں تین دن کے اندراندرلکھیں گے تب الیکشن کمیشن اس کے خلاف
کارروائی کریگا۔
یہ ایک بڑالمبا عمل ہے ظاہرہے الیکشن کمیشن پہلے کیس کی
شنوائی کرے گاپھر اس رکن کو ڈی سیٹ کرے گا اس کے بعد وہ فیصلہ ہائی کورٹ یا سپریم
کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور اسی دوران
اسمبلی کی مدت پوری ہوجاتی ہے اوروہ جو جرم ہواہوتا ہے وہ بھی اسمبلی کی مدت پوری
ہوتے ہی معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے یعنی جب تک
ایک ایسے رکن اسبلی کو سزا ملے گی اور ڈی سیٹ ہوگا اور حتمی فیصلہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے آئے گا
تب تک یہ پارلیمنٹ مدت پوری کر چکی ہوگی اور میلا بھی اجڑ چکا ہوگا اس کے ساتھ
ساتھ وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے سے بھی
فارغ ہو چکے ہوں گے ۔
اب اس لوٹاکریسی کو روکنا کس نے ہے اس کا آسان طریقہ ہے
کہ اگر کوئی رکن اسمبلی یا سینیٹراگر پارٹی سے اختلاف کرتا ہے تو اس کاآئینی طریقہ
یہ ہے کہ وہ استعفٰی دے جس بھی پارٹی سے الیکشن لڑنا چاہے ضمنی الیکشن لڑے۔لیکن اس
وقت پی ٹی آئی کے منحرف ان ضمیرفروشوں کی ریٹ لسٹ سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے اس
میں کتنی صداقت ہے اس کو ایک سائیڈ پررکھتے ہیں کیونکہ اس پرکوئی تفتیش کرنہیں
سکتا۔ وزیراعظم عمران خان یا اسپیکرقومی اسمبلی الیکشن کمیشن کو لکھ بھی دیں تو الیکشن
کمیشن آف پاکستان کہتا ہے کہ یہ اس طرح نہیں ہوگا۔ کوئی بھی ایم این اےپہلے
فلورکراس کرے اس کے بعد ہماراکام شروع ہوگا اسی طریقے سے یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کاسینٹ الیکشن ہوا تھا جس میں باقاعدہ طور پر ویڈیوزآگئی تھیں ان ویڈیوز سے
پتہ چلا کہ معاملات طے کیے جارہے ہیں اور
رشوت کے ذریعے ارکان خریدے جا رہے ہیں یا ان کی وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں تو
جب وہ ویڈیوزمنظرعام پرآئیں تو تہلکہ مچ گیا تھا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے
اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی تھی اورنہ ہی کسی قسم کا سوموٹوایکشن لیاگیا تھا
اب وہ الیکشن ہو چکا اور وہ بات ثابت بھی ہوئی اور اس میں یوسف رضا گیلانی نے اپنے
پورشن سے زیادہ ووٹ لے کر سینیٹربن گئے
تھے۔اب آج کی بات ہے کہ اسی کیس کی الیکشن کمیشن میں ہیرنگ تھی۔یوسف رضا گیلانی،موسٰی
گیلانی اور ان کےجو وکیل ہیں انہوں نے کہا کہ وہ ویڈیو ہماری ہیں ہی نہیں۔ یہ ساری
فیک ہیں جو بنائی گئی ہیں جبکہ اب بھی پرائم منسٹر عمران خان کے پاس سارے ثبوت
موجود ہیں کہ کون کس سے رابطہ کر رہا ہے آڈیوز اورویڈیوزبھی موجود ہیں اوران کی
تفصیل بھی موجود ہے اور منحرف اراکین سندھ
ہاؤس میں موجود ہیں ۔
تواب اس سارے معاملے کو حل کیسے کیا جائے،اس جرم کو کیسے
روکا جائے جبکہ اراکین اعتراف بھی کررہے ہیں اوراب ان کا ضمیربھی جاگ گیا تھا۔اس
معاملے میں اب جو طریقہ کار نکالا جا رہا ہے وہ ٹھیک ہے وزیراعظم عمران خان نے
اپنے قانونی ماہرین سے کہا ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان تحریک انصاف
کی پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں ۔ اس سلسلے میں تمام ارکان کوخطوط بھی لکھ دیے گئے ہیں اوراسپیکرقومی اسمبلی کو
بھی خط لکھا گیا ہے ۔اسی طرح پیپلزپارٹی نے بھی اپنے اراکین کو بھی خط لکھا ہے کہ
وہ تحریک عدم اعتماد والے دن ووٹنگ کے لیے اپنی حاضری کو یقینی بنائیں اگرکوئی بھی
رکن اس میں ڈالنے کے لیے نہ آیا تو اسے سیٹ
سے فارغ کردیا جائے گا یہ پارٹی سربراہ آصف علی زرداری لکھ رہے ہیں۔عمران خان اپنی پارٹی اراکین کو ہدایت دے رہے ہیں کہ اس
دن اسمبلی میں نہیں آناکیونکہ یہ پارٹی نےفیصلہ کیا ہے کہ اس دن غیرحاضر رہا جائے
گااور وہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ نمبرپورے کرنا اپوزیشن کا کام ہے۔ اب منحرف اراکین
کی تعداد کتنی بتائی جارہی ہے بارہ توسامنےآ چکے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں یہ تعداد
بڑھ بھی سکتی ہے یہ پچیس بھی ہو سکتے ہیں یہ چالیس سے بھی تجاوز کر سکتے ہیں۔
آج وزیراعظم کی سینئروزراء اورقانونی ٹیم سے مشاورت ہوئی
جس میں فیصلہ کیا گیا کہ دو تین طریقوں سے
ان کو روکا جائے گا نمبر ون طریقہ یہ ہے کہ سپیکر اجلاس بلائے یا نہ بلائے یہ
اس کی صوابدید ہے وہ کہہ سکتا ہے جیسے چیئرمین
سینیٹ نے کہا تھا جب چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تھی تو انہوں نے کہہ دیا
تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے لئے اجلاس نہیں بلایا جا سکتا اس کے لئے معمول کے مطابق صدر مملکت اجلاس طلب کریں یہ ہو سکتا ہے اب اس پرکنفیوژن
ہے کہ اپوزیشن جب ریکوزیشن کرےتو بلانا چاہیے اس لیے یہ آپشن ابھی ففٹی ففٹی ہے۔
ہوسکتا ہے یہ معاملہ صدر مملکت تک چلاجائے جس کے بعد صدرپاکستان کی مرضی ہے اجلاس
بلائیں نہ بلائیں اور کب بلائیں۔ دوسرا
آپشن یہ ہے کہ ان کو ووٹ دینے سے روکا جائے اس کے لیے فورس کا استعمال ضروری ہے ان
کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے وہ قومی اسمبلی کی فورس
ہوسکتی ہے ،وفاقی پولیس ہو سکتی ہے ان کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر نہ آنے دیا جائے
جبکہ اب یہ قانون ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس دن
اپوزیشن بھی ہوگی اور یہ کشیدگی آپ کو معلوم ہے کہ یہ پہلے ہی بہت بڑھتی جا رہی ہے
اس آپشن کو بھی رکھا ہوا ہے لیکن جوآخری آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے اور جو کیا
جائے گا جس کے بارے میں سپیکرکو مشورہ دیا جارہا ہے کہ اسپیکر ایسے تمام ارکان کی
رکنیت معطل کردے اور خاص طور پر یہ بارہ
لوگ جو منظر عام پر آ چکے ہیں وزیراعظم عمران خان اسپیکر قومی اسمبلی کو
دوبارہ خط لکھیں کہ آپ کو بطورپارٹی سربراہ خفیہ خط لکھا تھاجس کےبعد یہ لوگ منظر
عام پرآئے ہیں اور یہ ضمیر کے مطابق ووٹ دینا چاہتے ہیں سندھ ہاوس میں ہیں اس حالت
میں یہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں پارٹی کے ساتھ رابطے میں نہیں آ رہے
لہذا ان کی رکنیت معطل کر دی جائےکیونکہ پارٹی نے کہا ہے کہ اجلاس میں نہیں آنا،
ووٹنگ میں حصہ نہیں لینا یہ ووٹنک کے لیے تیارہیں لہذا ان کوفارغ کریں۔اب ان بارہ
ارکان کو معطل کیا جا سکتا ہے اور اگر سپیکر
قومی اسمبلی ان کی معطلی کا نوٹیفکیشن کردیتے ہیں تو وہ نہ صرف پارلیمنٹ ہاؤس میں
نہیں آ سکتے بلکہ وہ ووٹ تو نہیں دے سکیں گے پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی نہیں آ سکیں گے
اورایک نئی آئینی اور قانونی جنگ شروع ہوجائیگی پھر اس صورت میں ان بارہ ارکان کو
عدالتوں سے رجوع کرنا پڑے گا جبکہ وزیراعظم عمران خان بڑے پراعتماد ہیں انہوں نے
کہا ہے کہ میں آخری بال تک لڑوں گا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں