پیر، 21 مارچ، 2022

سپریم کورٹ کا بڑافیصلہ،اپوزیشن چت،سارا پیسہ ضائع،بکنے والوں کے بھی ہوش اُڑگئے

 سپریم کورٹ کا بڑافیصلہ،اپوزیشن چت،سارا پیسہ ضائع،بکنے والوں کے بھی ہوش اُڑگئے

ساری سازشیں ناکام ہوگئیں ساری انویسٹمنٹ ضائع ہوگئی ضمیرفروشوں کے لیے، منڈی لگانے والوں کے لیے ،خریداروں اوربکنے والوں کے لئے قیامت آ گئی، سپریم کورٹ میں جانامہنگا پڑگیا سپریم کورٹ کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کے بعد تواب جو کھیل کھیلا جارہا تھا چاہے وہ ایک سازش تھی یا کہ بیرونی ہاتھ کا معاملہ تھا جس کے بارے میں عمران خان نے بھی بارہا کہہ چکے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ جماعت کا ووٹ جماعت کی ملکیت ہے جب ایک شخص کسی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے اس کا ممبر بن جاتا ہے اس کے بعد اس کے انفرادی ووٹ کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق ووٹ سیاسی جماعت کی ملکیت ہوتا ہے اب  جو لوگ خریدے گئے تھےاورجوسوچاگیا تھا کہ وہ اس طرح جائیں گے اورووٹ ڈال دیں گے۔ یہ گئے ہی اس لیے تھے کہ ان کو روکا نہیں جائے گا سماعت اس چیز کی ہو رہی تھی اور اس میں جو ریمارکس سامنے آئے ہیں اس کے بعد مایوسی چھا گئی ہے بربادی ہوگئی ہے کچھ نہیں بچا ۔صرف معاملہ یہاں تک نہیں رکا بلکہ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ کہا گیا کہ جو معاملہ پارلیمنٹ کا ہے وہ پارلیمنٹ میں نمپٹائیں یعنی سپیکر کے حوالے سے بات کی ہے کہ انہوں نے اجلاس ۲۱ کی بجائے ۲۵ کو کیوں بلایا اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ سپیکرکے سامنے اٹھائیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت بھی یہ مان رہی ہے کہ سپیکر کے اختیارات آئینی اور قانونی ہیں۔اسپیکرجو چاہے گا وہ کرے گا اور اس پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا یہ بات بھی واضح ہوتی نظر آ رہی ہے۔

 اب آپ دیکھیں کہ ایک طرح سے حکومت کومسلسل فتح مل رہی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سےسپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا اس پر بھی پانچ رکنی لارجربینچ بنا دیا گیا ہے 24 مارچ کو اب سب جماعتوں کو بلایا گیا ہے ان کےوکیل پیش ہوسکتے ہیں حکومت نے عدالت سے پوچھا ہے کہ جن لوگوں نے پارٹی سے غداری کی،امانت میں خیانت کی، ووٹ بیچا ان کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے ۔ظاہری بات ہے کہ آئین میں لکھا ہے کہ نااہلی ہوگی  ۔حکومت کی طرف سے پوچھا گیا کہ نااہلی کس طرح سے ہوگی کیا ان کو ایک جرم کرنے دیا جائے اس کی اجازت ہوگی یاان کے ووٹ کی گنتی نہیں ہوگی اورکیا نااہلی تاحیات ہوگی یہ سوال بھی سپریم کورٹ سے پوچھے جا رہےجس  پرعدالت نے بھی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کی لسٹ جو اپوزیشن کے پاس کم و بیش تیس ارکان کی تھی وہ آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہے حتٰی کہ جہانگیرترین گروپ کے لوگ وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حمزہ شہباز آئے تھے انھوں نے ٹکٹ دینے کا کوئی وعدہ ہم سے نہیں کیا اورنہ ہی کوئی حامی بھری ہے بلکہ انہوں نے تو بڑا مایوس کیا ہے میں اورجہانگیرترین کے لوگ بھی عثمان بزدارسے مل گئے ہیں اورجہانگیرگروپ کے مرکزی رہنماعون چودھری کہہ رہے ہیں کہ وزیراعلٰی کو تبدیل کرنے کی کوئی بات نہیں ہوئی ۔ چیزیں بڑی تیزی سے بدل رہی ہیں اورحالات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں یعنی جیسے جیسے یہ ٹیسٹ میچ آگے بڑھ رہا ہے توعمران خان زیادہ اچھا کھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔آج جو کچھ سپریم کورٹ میں ہوا اس کے بعد تو اب لگ رہا ہے کہ ساری خواہشیں اور سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا ہے اوراپوزیشن کی طرف سے جو انویسٹمنٹ کی گئی تھی وہ بھی ڈوبتی ہوئی نظرآرہی ہےاور بدنامی بھی ہوئی ،سب لوگ ایکسپوز ہوکررہ گئےپھراس کا مطلب عمران خان ٹھیک کہتے تھےانہوں نے کمال کر دیا ہے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ اب توقوم احتساب کر سکتی ہے قوم باہر نکل رہی ہےقوم اب جان بھی گئی ہے اورجاگ بھی گئی ہے کہ ان کے نام پرکیا کچھ ہوتا رہا ہے اورکس طرح سے ضمیر بکتے رہے ہیں۔

آپ کو بتاوں کہ سپریم کورٹ کے دس ججزکا فیصلہ موجود ہے کہ جو ضمیرفروش ہوگایا جوبکے گا یا جو یہ کہے گا کہ اس کا ضمیر جاگ گیا ہے تووہ پارٹی سے انحراف کرے گا ۔سب سے پہلے اسے پارٹی سے استعفی دینا ہوگا اورجب وہ استعفٰی دے دے گا تووہ ممبر ہی نہیں رہے گا تو اس طرح انویسٹمنٹ توضائع ہوجائےگی اور برباد ہو جائیں گے۔ اب آپ دیکھیں کہ آرٹیکل ۹۵ کے تحت ووٹ سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، انفرادی ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ۔جو لوٹےخریدے گئے ہیں وہ گھوم گئے ہیں۔

 سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی جس پرآج سماعت ہوئی۔اس میں آرٹیکل ۹۵ کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے یہ سپریم کورٹ نے بتا دیا ہے کہ انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں ہے سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف درخواست کی سماعت  چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ تصادم نہیں ہونا چاہیے اورامن وامان کی صورتحال خراب نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کو جلسہ کرنے روکا نہیں جاسکتا ۔اصل میں 27 مارچ کاتحریک انصاف کا جلسہ جس سےسارے مخالفین پریشان تھےاورڈرے ہوئے تھےکہ یہ تو پوری دنیا میں دیکھا جائے گا عمران خان کی مقبولیت بڑھتی چلی جا رہی ہے ہم کیا کریں گے تو وہ اس کو رکوانا چاہتے تھے، میدان سےہی بھاگنا چاہتے تھے ۔

سماعت کے سلسلہ میں اہم رہنما بھی عدالت پہنچے جن میں مسلم لیگ ن کے شہبازشریف ،پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری،جمعیت علماء اسلام کے فضل الرحمٰن،بی این پی کے اخترمینگل تھے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے عدالت ابھی تک اسمبلی کی کارروائی  میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی عدالت صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو تمام نکات اسپیکر کے سامنے اٹھائے جا سکتے ہیں۔اسی دوران پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک نےاسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کیا اور کہا کے اسپیکر نے ۲۱ کی بجائے ۲۵ کو اجلاس بلاکر آئین کی خلاف ورزی کی ہے اٹارنی جنرل  نے کہا کہ جن پرآرٹیکل ۶ لگا ہے پہلے ان پر عمل کروالیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل ۱۷ سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے اوراس آرٹیکل کی رو سےحقوق سیاسی جماعت کا ہوتے ہیں اورآرٹیکل ۹۵ کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے کسی بھی رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں ۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے۔

 سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعداجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے،انفرادی حق کوئی نہیں چیف جسٹس نے کہا کہ بارچاہتی ہے کہ ممبر جس کو چاہے ووٹ ڈالے اسے روکا نہیں جائے گا۔چیف جسٹس نے بارایسوسی ایشن کے وکیل سےکہا کہ بارایسوسی ایشن کا عدم اعتماد کیا لینا دینا بارعوامی حقوق کی بات کرےجلسہ کرنے کے حوالے سپریم کورٹ نے کہا کہ ڈی چوک پر جلسہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ ریڈ زون ہے اورریڈزون میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے۔اس لیے بہتر کہ حکومتی پارٹی پریڈ گراونڈ جبکہ اپوزیشن ایچ ۱۰سیکٹر یا ایف نائن پارک میں جلسہ کرے۔جس پر دونوں پارٹیوں نے حامی بھر لی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں