جمعہ، 25 مارچ، 2022

کپتان کامیاب،ادارے بھی ساتھ آگئے،الٹی گنگا بہہ گئی،چوروں کے راستے بند

 کپتان کامیاب،ادارے بھی ساتھ آگئے،الٹی گنگا بہہ گئی،چوروں کے راستے بند

اب صرف فیصلہ یہ ہونا ہے کہ اس ملک میں لوٹوں کی حکومت ہوگی یا نہیں جہاں پربات آکر اب فیصلہ کن موڑاختیارکر چکی ہے اس قوم نے بہت دیکھ لیا اب ایک  راستہ چننا ہے کہ کس طرف جانا ہے لوٹوں کی نوٹوں کی سیاست اس ملک میں جاری رہے گی یا اس کو روکنا ہے۔ سپریم کورٹ میں کیا سوالات کیے جا رہے ہیں اس سے ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کیا جاننا چاہ رہی ہے۔وکلاء، چاروں صوبے  اور مختلف جماعتیں بتائیں اوران سوالوں کے جوابات  دیں پھر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی اور سپریم کورٹ کے ریمارکس اس وقت بہت اہم ہیں کیونکہ سارا معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔سینئرصحافی حبیب اکرم اپنی ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ فیصلہ بس یہ کرنا ہے کہ ملک میں" لوٹوں"  کی حکومت ہوگی یا نہیں باقی بحثییں ہیں جنہیں جتنا کھینچنا چاہیں کھینچتے رہیں۔

اب ہم اگر سپریم کورٹ  کی جمعرات کی سماعت کو دیکھیں تو اس میں چیف جسٹس کی طرف سے بڑے اہم ریمارکس ہیں کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ جو نااہلی ہے یہ تاحیات ہے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک تشریح تو یہ کہ انحراف کرنے والے کا ووٹ شمارنہ ہو۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ڈی سیٹ ہونے تک ووٹ شمارہوسکتا ہےاٹھارہویں ترمیم میں ووٹ شمارکرنے کا کہیں ذکرنہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہےکہ اس میں کوئی دنگا فساد نہیں ہونا چاہیے اوراس سلسلے میں چاروں صوبوں سے معاونت طلب کرلی گئی ہے اوران کو نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں ۔دوران سماعت سپریم کورٹ نے حکومت کی ٹائیگرفورس اورڈنڈا بردارفورس پر تشویش کیا اظہارکیا ہے۔

اپوزیشن میں بھی اختلافات چل رہے ہیں کہ نون لیگ اورجے یو آئی کی طرح پیپلز پارٹی  اس لانگ مارچ میں شرکت کرتی نظر نہیں آرہی بلکہ وہ بیک فٹ پرچلی گئی ہے۔ سماعت کے حوالے سے چند چیزیں ہیں جن کا ذکر کرتا چلوں ۔آج دوران سماعت یہ سوال اٹھا کہ اگر پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تو تباہ ہو جائے گی اس طرح جس طرح کوئی چاہے گامنہ پھیر لے گا جو زیادہ پیسے دے گا اس کی طرف ضمیر مڑ جائے گا جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کی پالیسی  کیخلاف ووٹ در حقیقت سیاسی جماعت کو کمزور کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حیثیت میں سامنے آتا ہے سیاسی جماعتیں عوام کے لیے ایوان میں قانون سازی کرتی ہیں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 4 مواقع پر پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل ۶۳ اے لایا گیا جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ سیاسی جماعت کو ایک ادارے کی حیثیت حاصل ہےجسٹس منیب اختر نے کہا کہ جمہوری نظام میں سیاسی جماعت کمزور ہو تو جمہوری نظام متاثر ہو جائے گا اٹارنی جنرل نے کہا کہ امریکہ میں صدارتی نظام  کے باوجودایک سینیٹر آزاد حیثیت سے نہیں ہوتا جنرل ضیاء نے سیاسی جماعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر انتخابات جیتنے والے اورآزاد رکن قومی اسمبلی میں کیا تفریق ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد رکن کو اگر اس جماعت کا منشور قبول نہیں تو پھر اسے استعفٰی دے دینا چاہیے پانچ سال کی اسمبلی میں اڑھائی  سال بعدکشتی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا آپ ہم سے تاحیات نااہلی مانگ رہے ہیں ؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ موجودہ حکومت کی بہت کم اکثریت ہے ایک جہازکو ڈبو کر دوسرے میں بیٹھیں گے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل ۶۳اے اچھے برے کی تمیز کے بغیر پارٹی حکم پر عمل کرنے کی بات کرتا ہے اصل مسئلہ ہی یہی ہے اراکین کے ادھراُدھر جانے سے تباہی پھیلے گی ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ۶۳ اے اور۶۲ اے کو اکٹھا پڑھاجائے جس پر جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی دلیل بھی فلورکراسنگ پر ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کوئی رکن یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا ووٹ پالیسی کے خلاف ہے لیکن اس سے کوئی متاثرنہ ہو جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آپ پارٹی صدر کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں اٹارنی جنرل نےجواب دیا کہ ہم پارٹی سربراہ کو بادشاہ نہیں بنانا چاہتےلیکن ہم پارٹی سربراہ کو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جا سکتی ہے زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی گنتی  سے قائم ہوتی ہیں کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہازڈبویا جاسکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہو سکتی ہے جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اب پنڈورا باکس کھل گیا تومیوزیکل چیئر ہی  چلتی رہے گی اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ  معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے جسٹس منیب اخترنے کہا کہ سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔

آج کل بہت اہم معاملات چل رہے ہیں اور اب دیکھنا  یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں کیا فیصلہ دیتی ہے عمران خان  بڑے مطمئن نظر آ رہے ہیں اورسپریم کورٹ کی سماعت کے بارے میں بھی انہیں بتایا گیا ۔اتحادیوں کے بارے بھی انہوں نے کہا کہ اتحادی کہیں نہیں  جارہے ہیں اور نہ ہی حکومت کہیں جا رہی ہےاب  دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے کس طرح سے آگے پیش رفت ہوتی ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس حوالے سے ان شاء اللہ آپ کو آگاہ رکھیں گے ابھی تک لگ رہا ہے کہ عمران خان کو اتنی آسانی سے نہیں گرایا جا سکتا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں