آئندہ 48 گھنٹوں میں اسمبلیاں تحلیل ہونے یا عوام پرمہنگائی کا بم پھوٹنےکا امکان
ایک جانب توسپریم کورٹ نےامپورٹڈ حکومت کے پر کاٹ دیے ہیں اوربھان متی کے کنبے کو سپریم
کورٹ کی طرف سے اب تک کا سب سے بڑا دھچکا لگا ہے اوراب ان کے حکومت میں آنے کا انہیں
کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف اور صرف نقصان میں ہی رہیں گے دوسری جانب کچھ بڑے اہم فیصلے ہونے ہیں اندر
کھاتے بہت کچھ چل رہا ہے اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ پر نہ صرف اس حکومت کی نظر ہے بلکہ عمران خان کی نظریں بھی اس وقت
راولپنڈی پرلگی ہیں۔ اس امپورٹڈ حکومت کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ سےآخری مطالبہ کیا ہے
اس حوالے سے تفصیلات آپ کے سامنے رکھنی ہیں جبکہ آنے والے 48 گھنٹے کیوں اہم ہونے
والے ہیں اوران میں سے دو بڑے فیصلے جس میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی ہےوہ
یہ امپورٹڈ حکومت لے سکتی ہے اور یہ بہت باخبر ذرائع کی خبر ہے اوراس وقت پورے کا
پورا معاملہ بڑا دلچسپ ہو چکا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے اور کل آنے والا الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بارے
میں کچھ تفصیلات بھی آپ کےسامنے رکھوں گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنما مکمل ایکشن میں
ہیں اور کسی بھی صورت پاکستان کی اسٹبلشمنٹ یا نیوٹرل کو بخشنے کے لیے تیار نظر نہیں
آ رہے ۔ شیریں مزاری نے ایک نیا سوال
پوچھا ہے جس سے نیا پھڈا پڑ چکا ہے اس حوالے سے بھی کچھ تفصیلات آپ کے سامنے رکھی
جائیں گی تاکہ معاملہ کو اچھی طرح سمجھا
جا سکے کہ اس وقت پاکستان میں ہوکیا رہا ہے ۔
وزیر
اعلی پنجاب کا انتخاب کالعدم قرار دینے کیلئے لاہورہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی
گئی ہے ۔ عمران خان کی امپورٹڈ حکومت کے خلاف تحریک روزبروز بڑھتی جارہی ہے ۔عمران
خان نے لانگ مارچ کی تاریخ بھی دینی ہے لیکن اس سے پہلے اس حکومت کی سانسیں پھول
چکی ہیں۔ عوام میں جوش اس وقت آسمان کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے جو پاکستانی تاریخ
میں اس سے پہلےنہیں دیکھا گیا۔عمران خان کی گرفتاری کا منصوبہ ناکام بنانے کے لیے
دوسو کے لگ بھگ پی ٹی آئی کارکنان نے بنی گالہ میں کپتان کی رہائش گاہ کے قریب خیمے
لگا لیے ہیں تاکہ اپنے لیڈرکا وہ دفاع کرسکیں اور ان کی طرف آنے والوں کا راستہ
روک سکیں۔
تحریک
انصاف کے پچیس ارکان پنجاب اسمبلی نااہل ہوں گے یا نہیں اب یہ فیصلہ کل سنایا جانا
ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس نہ چاہتے ہوئےبھی اب کوئی آپشن نہیں بچا سکا سپریم
کورٹ کے فیصلے کے بعد اب الیکشن کمیشن کو بھی ہاتھ پاؤں پڑے ہیں اورجتنا مرضی وہ
لوٹوں کے خلاف فیصلہ نہ دینا چاہیں انہیں پھربھی ان لوٹوں کے خلاف فیصلہ دینا ہو
گا ۔اگروہ ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں تو پھر کوئی حجت نہیں رہے گی اورالیکشن کمیشن
کے حوالے سے فوری طور پر کچھ چیزیں مائنس
کرنی ہوگی جیسے الیکشن کمشنر کی تبدیلی ضروری ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے کل
امپورٹڈ حکومت کو ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیااور ازخود نوٹس لیاہے جس میں سپریم
کورٹ نے ہائی پروفائل کیسزکے بارے کوئی بھی زیرسماعت مقدمہ واپس نہیں لیا جائے
گااورتقرراورتبادلے بھی روک دیے گئے۔مقدمات کا ریکارڈ سیل کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔سپریم
کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ای سی ایل میں شامل اور ای سی ایل سے نکالے گئے تمام نام
اور طریقہ کار کی تفصیل پیش کی جائے اور پچھلےچھ ہفتے کی تقرریاں اور تبادلے کی
تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں۔ یہ ایک
بہت بڑا دھچکا ہے جو امپورٹڈ حکومت کا لگا ہے جب کہ ابھی بھی پاکستان تحریک انصاف
کی طرف سے پریشر بڑھایا جا رہا ہے ۔اسد عمر نے بیان دیا ہے کہ فیصلہ کرنے والے کان
کھول کر سن لیں کہ اگروہ فیصلے نہیں کریں گے تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
شیریں مزاری نے توپوں کا رخ آئی ایس پی آر کی طرف رکھا
اور کہا کہ ہماری حکومت جانے پر معاشی استحکام آنے کا بیان دینے والے ڈی جی آئی ایس
پی آر شہباز سپیڈ سے روپیہ اور اسٹاک مارکیٹ
گرنے پر بھی کچھ بولیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے کچھ رہنماؤں کی طرف سے پریشربلڈنگ ابھی
بھی جاری و ساری ہے۔
اگر
شہباز شریف کی حکومت کومقتدر حلقوں کی طرف سےاگست 2023 تک برسراقتدار رہنے کی یقین
دہانی نہ ملی تو قومی اسمبلی تحلیل ہوجائے گی اور باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ اگلے
دو دن انتہائی اہم ہیں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آپ کو تیل کی قیمتوں میں اضافےکی
خبر ملے گی یا پھرقومی اسمبلی تحلیل ہوجائے گی منگل کی رات وزیراعظم نواز شریف نے
اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ موجودہ حکومت کو جاری رہنا چاہئے اور
اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے وہ مقتدر حلقوں سے مطلوبہ حمایت ہے۔جبکہ اگر انتخابات
اکتوبر میں کرائے گئے تو موجودہ حکومت کو ایک بھاری سیاسی قیمت چکانا ہوگی عوام کے
سامنے یہ بہت زیادہ گندے ہو جائیں گے ۔ نواز شریف ،آصف زرداری اور مولانا فضل
الرحمان تیل کی قیمتیں بڑھانے کا حق میں نہیں ھیں۔ اندرکی بات یہ ہے کہ ان کی رائے
ہے کہ اس اقدام سے مہنگائی آئے گی اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا جبکہ شہباز شریف کو یقین ہے کہ معاشی مسائل حل ہوجائیں
گے اور 2023 تک اگرہمیں حکومت ملتی ہے توہم حالات ٹھیک کرلیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں