ہفتہ، 2 جولائی، 2022

طالبان کا اسامہ بن لادن کے حوالے سے بڑادعوٰی،امریکہ کو جان کے لالے پڑگئے

 

طالبان کا اسامہ بن لادن کے حوالے سے بڑادعوٰی،امریکہ کو جان کے لالے پڑگئے

افغان طالبان بھی عمران خان کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں انہوں نے بھی طے کرلیا ہے کہ ہمیں بھی ٹیپوسلطان کے فارمولے پرعمل کرنا چاہیے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے افغان حکومت نے امریکا کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں  طالبان نے امریکہ سے ایسا مطالبہ کردیا ہے کہ جو بائیڈن کے پیروں تلے زمین نکل چکی ہے ۔ روس کے ساتھ سینگ پھنسانے والا امریکہ اب پوری طرح سے خود پھنس چکا ہے اور جوبائیڈن انتظامیہ  کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اس مشکل سے کیسے نکلا جائے۔ لگتا ہے کہ خطے میں ایک اور گریٹ گیم  شروع ہونے جا رہی ہیں لیکن افغان حکومت نے جس طرح سے امریکیوں کو پھنسا دیا ہے اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ کسی بھی ملک کی خودمختاری اور سالمیت کا معاملہ حکمرانوں کی غیرت مند ہونے سے جڑا ہوتا ہے۔ افغان حکومت اس وقت پائی پائی کی محتاج ہے لیکن ایسے میں بھی انہوں نے امریکہ کو ناصرف للکارا بلکہ ایک طرح سے شٹ اپ کال بھی دی ہے۔

کابل اورواشنگٹن کے درمیان کیا نیا تنازعہ کھڑا ہوا پینٹاگون میں دس گھنٹے تک ہونے والی میٹنگ کا نتیجہ کیا نکلا طالبان کیسے اس مائنڈ گیم میں امریکیوں کو دھول چٹانے کی تیاری کیے بیٹھے ہیں اس پر آپ کو تفصیل سے بتائیں گے ۔

 افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی یہ طےکر لیا تھا کہ امریکیوں سے بیس سالہ جنگ کا بدلا لینا ہے۔  امریکیوں کے ڈرون حملوں اور بمباری کے نتیجے میں افغانستان میں لاکھوں افراد کی اموات ہوئیں۔ طالبان جنگجوؤں بلکہ موجودہ قیادت میں تقریبا تمام لوگوں کے قریبی رشتہ دار امریکیوں کے حملوں میں مارے گئے کسی نے اپنے والد کا جنازہ اٹھایا تو کسی نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائی کو دفنایا کسی کی بوڑھی ماں گھر میں کھانا بناتی ڈرون حملے میں زندگی کی بازی گئی تو کسی کو طالبان کی مخبری نہ کرنے کی سزا ملی  اور اس کے پورے گھر کو آگ لگادی ۔لہٰذا  طالبان حکام میں امریکہ مخالف ایک جذبہ بہرحال موجود ہےاب جیسے ہی کابل انتظامیہ کو موقع ملا انہوں نے موقع پر چوکا لگاتے ہوئے امریکیوں سے تمام اگلا پچھلا حساب چکتا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

افغان طالبان نے امریکیوں کوانہی کے جال میں پھنسا کر گڑھےمردے اکھاڑنے شروع کر دیے ہیں۔دراصل طالبان نے امریکی حکومت اور انتظامیہ سے ثبوت مانگ رہے ہیں کہ بتایا جائے کہ نائن الیون میں شامل حملہ آوروں میں کتنے افراد افغان باشندے تھے حملہ آوروں کا اسامہ بن لادن سے کیا تعلق تھا اور نائن الیون کی آڑ میں امریکہ نے کیوں لاو لشکر کی شکل میں افغانستان پر یلغار کی ۔

ایک طرح سے افغان حکومت نے یہ ترپ کی چال چل دی ہے اور اب اگر وہ اپنے کارڈ صحیح طریقے سے کھیلے تو واشنگٹن کو پیروں پر لا سکتی ہیں افغانستان کی جانب سے جوبائیڈن انتظامیہ سے دوٹوک لہجے میں کہا گیا ہے کہ ہمیں ثبوت تو فراہم کریں کہ اسامہ بن لادن کا اس حملے میں کیا قصور تھا اور طالبان نے کونسا جرم کیا تھا جس کی بنیاد پر نہ صرف ان کی حکومت بدلی کی گئی بلکہ پورے ملک کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیاگیا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے اور پھر امریکہ نے تمام اموات کوکولیٹرل ڈیمیج یعنی ضمنی نقصان  کا نام دےکر اپنے تمام فوجیوں کوکلین چٹ بھی دے دی صرف یہی نہیں جب ۲۰۰۲ء میں امریکہ نے عراق پر یلغار کی تواس وقت جارج ڈبلیوبش اور ان کے برطانوی اتحادی ٹونی بلیئر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عراق نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا لیے ہیں پہلے تو عالمی ادارے کے ماہرین سے چیکنگ کرانے کا مطالبہ کیا گیا ۔عراقی حکومت اور صدام حسین نے اس کی اجازت بھی دے دی لیکن اس کے باوجود امریکہ اور نیٹو افواج نےعراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بیس سال بعد بھی امریکی حکومت کوئی ایک ثبوت سامنے نہ لاسکی جس سے ثابت ہو سکے کہ عراق میں کوئی ایٹمی ہتھیار بنائے گئے تھے دنیا بھر میں رسوائی کے باوجود امریکیوں کو افغانستان اور عراق پر حملوں سے متعلق معافی مانگنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

اب افغان حکومت کے اس مطالبے کے بعد صدر جو بائیڈن کے لیے صورتحال زیادہ گھمبیر ہو گئی ہے اور وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ کیا کریں کیونکہ طالبان حکومت نے ایسا نقطہ اٹھایا ہے جواب صدر جو بائیڈن کےگلے کی ہڈی بن چکا ہے ویسے بھی امریکیوں کو سیدھی طرح سے سمجھ نہیں آتی ۔پچھلے سال جب طالبان نے امریکیوں کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی تو واشنگٹن نے صاف انکار کر دیا تھا لیکن پھر سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعدعقل ٹھکانے اس وقت آئی جب طالبان نے سیکڑوں امریکی فوجی مارگرائے۔اس خبرکو بہت ہی زیادہ چھپانے کی کوشش کی لیکن جب ایک سپینش صحافی نے ٹوئیٹر پر اس خبرکوبریک کر دیا تو مجبورًا امریکیوں کو فوجیوں کی ہلاکت قبول کرنی پڑی اور اس کے بعد امریکہ نے طالبان سے براہ راست مذاکرات شروع کردیے ورنہ اس سے پہلے زلمے خلیل زاد کی جانب سے صرف ایک ہی بیان دیا جاتا تھا کہ امریکہ افغان حکومت کےساتھ ہے طالبان کو اشرف غنی سے مذاکرات کرنے ہوں گے لیکن افغان طالبان کی مسلسل ایک ہی گردان تھی کہ وہ کسی کٹھ پتلی سے بات نہیں کریں گے پھر مذاکرات کے بعد راتوں رات امریکہ جس طرح افغانستان سے فرار ہوا وہ ایک الگ داستان ہے امریکیوں کی جانب سے بگرام ائیربیس خالی کرنے کی دیر تھی کہ اربوں ڈالر لگا کر کھڑی کی جانے والی ساڑھے تین لاکھ افغان آرمی سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئی۔

ظاہرہے افغان فوج کا یہی حشر ہونا تھا  کہ اس فوج کے پاس نہ کوئی قوت ایمانی تھی اور نہ ہی کوئی نظریہ وہ سب کے سب صرف پیسوں کے پجاری تھے اور ڈالروں  کی چمک  پر امریکی ویزے کے حصول کی خاطر فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے جیسے طالبان کی مختلف علاقوں میں پیش قدمی بڑھتی گئی ویسے ویسے افغان فوجی بھاگتے رہے یہاں تک کہ 15 اگست ۲۰۲۱ کو طالبان نے افغانستان پر کنٹرول سنبھال لیا موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ تقریباً ۲۱ سال بعد امریکا نائن الیون سے متعلق شواہد اور ثبوت جمع کرے یا دوبارہ کوئی کمیشن بنائے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو امریکی عوام سابق صدور کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے اور خانہ جنگی ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن نے پینٹاگون  میں اہم ترین مسئلے پر اجلاس بلایا جو تقریبا ایک گھنٹےتک جاری رہا اس پر بھی امریکی حکام کوئی فیصلہ نہ کر سکے بلکہ اجلاس کے دوران ایک رکن کی جانب سے سی آئی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا میٹنگ کے دوران ایک رکن نے سی آئی اے ڈائریکٹر کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ امریکہ کے اربوں ڈالر ڈبو نےکی ذمہ داری  سی آئی اے کی ہے کیونکہ انہوں نے نہ تو کبھی اس بارے میں رپورٹ دی کہ افغانستان میں فوج کے لیے دیا جانے والا پیسہ کہاں خرچ کیا جا رہا ہے اور کون کون سے افغان جنرلز اپنے بینک بیلنس بھرنے میں مصروف ہیں جس پر سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے بھی اس کو کھری کھری سنا دیں۔ جہاں تک افغان فوج کی بات ہے تو ان کے ساتھ ہماری ذاتی رائے یہی کچھ ہونا تھا کیونکہ مصنوعی طریقے سے کھڑی کی جانے والی فوج بغیر کسی نظریے سے زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتی البتہ جتنا پیسہ  امریکیوں نے خرچ کیا تھا اس کی بنیاد پر اگر افغان فوج میں نظریہ سازی کی جاتی تو معاملات مختلف ہوتے لیکن ایک اوراہم وجہ یہ بھی تھی کہ فوجیوں نے کہا وہ کیوں اشرف غنی اوررشید دوستم جیسے جرنیلوں کے پیسے بچانے کے لیےاپنی جان داؤ پر لگائیں لہٰذا پوری پوری رجمنٹ ہتھیارڈال کر طالبان کے سامنے معافی کی طلبگار ہوگئے۔

 اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی جانب سے اس مطالبے پر امریکی حکام کیا جواب دیتے ہیں لیکن فی الحال یہی لگتا ہے کہ طالبان نے امریکہ کوایک بند گلی میں پہنچا دیا ہے جہاں سے اس کی باعزت واپسی تقریبا ناممکن ہو چکی ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں