ہفتہ، 23 جولائی، 2022

بند کمروں کا پلان فارغ،ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ غیرآئینی ،اسٹیبلشمنٹ کا مداخلت کا فیصلہ

 

بند کمروں کا پلان فارغ،ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ غیرآئینی ،اسٹیبلشمنٹ کا مداخلت کا فیصلہ


کل جوڈپٹی اسپیکرنے غیرآئینی اقدام کیا آج سپریم کورٹ نے اس کی دھجیاں اڑا کررکھ دیں  اور صورت حال یہ پیدا ہوئی ہے کہ سپریم کورٹ نےڈپٹی اسپیکرکو طلب کرلیا ہے کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے ۔آپ دیکھیں کہ اب ساراکھیل واضح ہوتا جارہا ہے۔اب چوہدری مونس الٰہی نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ چوہدری شجاعت پردباو تھاجس وجہ سے ان سے یہ فیصلہ کروایا گیا ہے۔  یہ دباو کس نے ڈالا یہ بات پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے۔  لیکن حمزہ شہباز کے حلف کے بعد حکومت اوراتحادیوں کی جانب سے موجودہ صورتحال پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ڈپٹی اسپیکررولنگ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کرے ۔یہ مطالبہ صرف اور صرف بدنیتی پرمبنی ہے تاکہ کیس کو طوالت دی جائے کیونکہ جنہوں نے بند کمروں یہ گندا کھیل کھیلا ان کا یہ پلان برباد ہوچکا ہے۔

موجودہ صورتحال کے پیش نظر صحافیوں سے ٹویٹس کیوں کروائی جا رہی ہیں اصل میں اس کے پیچھے آج کی سماعت کے احوال کے بعد پیدا ہونے والی  صورتحال  ہے۔ سب سے پہلے توایک بات  اچھی طرح سمجھ لینی ہے کہ ن لیگ کے تمام لوگوں کو یہ ایک خاص قسم کا میسج موصول ہوا کہ آپ لوگوں نے ٹویٹس کے ذریعے کہ چیف جسٹس  اور ان کے ججزجو کہ اس کیس کی سماعت کررہے ہیں ان کے فیصلے کو متنازعہ بنانا ہے۔ اوران پر پریشر ڈالنا ہے کہ آپ نے فیصلہ نہیں دینا بلکہ آپ اس  فیصلے کو ریورس کریں اور جو بھی آپ اقدامات کرنے جا رہے ہیں وہ کرنے سے پہلے  آپ لارجربینچ تشکیل دیں تاکہ یہ سلسلہ آگے جائے کیوں کہ ایک ہی بات ان کے دماغوں میں آرہی ہے کہ کسی طرح  ایک دو مہینے تک کیس کو کھینچ کرلےجایا جائے  جبکہ یہ صرف ایک گھنٹے کا کام ہے اگر یہ صورت حال پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ نومبر تک اسے کھینچیں گے۔

آج سماعت کے دوران اصل میں کیا معاملہ ہوا جس کی وجہ سے ان کی چیخیں نکلی ہیں وہ آپ کو بتاتے ہیں  حمزہ شہباز نے توآج دوبارہ حلف اٹھا لیا تھا لیکن جنہوں نے بند کمروں میں بیٹھ کر حمزہ شہباز کو دوبارہ پاور دینے کی بات کی آج ان کو سپریم کورٹ نے اڑا کر رکھ دیا ہے ۔سپریم کورٹ نے کیاکمال آج ریمارکس دیےہیں۔جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ کل رات جب پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات کیے گئے تو پی ٹی آئی والے سڑکوں پر نکل آئے تھے انہوں نے رات کو دو بجے سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں جا کر پٹیشن دائرکردی جس کی باقاعدہ سماعت آج کی گئی جس میں  چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور فیصلے کواڑا کے رکھ دیا۔ رات کوعمران خان کے خطاب میں بھی ان کا لہجہ کیوں ٹھنڈا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں پتہ تھا کہ وہ اس غیر قانونی رولنگ کو سپریم کورٹ میں جا کرفارغ کروا سکتے ہیں۔

اب سمجھتے ہیں کہ ہوا کیا ہے  ییرسٹرعلی ظفر آئے اورانہوں نے آکر بتایا کہ  کل رات کوہم نے پٹیشن دائر کی ہے اور یہ پٹیشن اس لیے دائر کی گئی  کہ ڈپٹی سپیکر نہیں غلط رولنگ دی ہے اورانہوں نے آپ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہےوہ کہتے ہیں کہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق پر عمل کر رہا ہوں لہذا میرے پاس پارٹی ہیڈ کا یہ لیٹر ہے اور اس لیٹر کے مطابق مسلم لیگ ق کے ووٹ گنتی نہیں ہوسکتے جو کہ صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے رولنگ پڑھ کر سنائی  جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال بڑے حیران ہوئے کہ پارٹی ہیڈ یہ کس طرح کہہ سکتا ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ حمزہ شہباز کا اٹھایا گیا حلف کوئی وقعت نہیں رکھتا گیا ۔عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو ریکارڈ سمیت طلب کیا کہ کہا کہ وہ آکر ہمیں بتائے کہ اس نے یہ تمام باتیں کس طرح کہہ دی ہیں اورکون سے سپریم کورٹ کے آرڈر کو بنیاد بنا کررولنگ دی ہے اورہمیں ہمارے فیصلے کی تشریح کرکے بتائیں اور اس سسلسلے میں عدالت کی معاونت کی جائے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی  ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ سارے کا سارا معاملہ ہوا ۔پوراپاکستان ہمیں دیکھ رہا ہے اوروہ یہ سماعت سننا چاہتا ہےیہ معاملہ63

اے 2 بی کی تشریح کا ہے اورہم نے کسی جگہ کوئی ایسا آرڈردیا ہی نہیں ہے۔بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کےفیصلے کی غلط تشریح کی ہےجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جمہوری روایت یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی ہی طے کرتی ہے کہ کس فریق کو ووٹ کرنا ہے۔ اس کے بعد جج نے پوچھا کہ کیا وہ ارکان حلف دینے کو تیارہیں تو بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بالکل وہ تیارہیں۔

آج بحث یہ ہوتی رہی کہ  پارٹی سربراہ صرف پارلیمانی پارٹی کی ڈائریکشن کی خلاف ورزی پر رپورٹ کر سکتا ہے لیکن بند کمروں میں بیٹھ کرجنہوں نے یہ فیصلے کروائے ہیں اب ان کے پچھتانے کا وقت آگیا ہے چوہدری شجاعت جیسے لوگ تو صرف ایک مہرہ ہیں ۔ اسی طرح ڈپٹی اسپیکر کی ڈوریاں بھی کسی اور جگہ سے ہل رہی تھیں اورانہیں پیچھے سے جس طرح ڈائریکشن مل رہی تھی وہ اسی طرح کرتے جارہے تھے ایسی صورت میں تو ڈپٹی سپیکر پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیےتھا جس طرح انہوں نے آئین کو پامال کیا ہے۔

آج سپریم کورٹ کے بلانے پر بھی ڈپٹی اسپیکرحاضرنہ ہوئے بلکہ اپنی جگہ پر اپنے وکیل عرفان قادر کو بھیج دیا جو کہ عدالت کو کسی بات پر قائل اور مطمئن نہ کرسکے اوران کی استدعا پر عدالت نے کیس کی سماعت ۲۵ جولائی بروز پیر تک ملتوی کردی لیکن اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے حمزہ شہباز کو یکم جولائی والی پوزیشن پر بحال کردیا اب وہ ایک ٹرسٹی کے طور پر عبوری وزیراعلٰی ہیں اورعدالت کے فیصلے تک ایسے ہی محدود اختیارات کے ساتھ عمل کرتے رہیں گے۔اس کیس کی پیرکوسماعت اسلام آباد سپریم کورٹ میں ہوگی جس میں ڈپٹی اسپیکر کوریکارڈ سمیت طلب کیا گیا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے اور مل جل کر ملکی معیشت اورسیاسی بحران کو حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اوراکتوبرمیں الیکشن کے ممکنہ انعقاد پر بھی تمام جماعتوں کو قائل کیا جائے گا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں