جمعہ، 19 اگست، 2022

سب حربے ناکام ،عدالت کا شہبازگل کے حق میں فیصلہ ،اسلام آباد پولیس منہ دیکھتی رہ گئی

 

سب حربے ناکام ،عدالت کا شہبازگل کے حق میں فیصلہ ،اسلام آباد پولیس منہ دیکھتی رہ گئی

ڈاکٹر شہباز گل کے کیس کے حوالے سے تمام تر حربے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور جج راجہ فاروق علی خان نے آج ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے آج شہباز گل کو ایمبولینس کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی طبیعت کیسی ہوگی۔عدالت کے اندر پولیس نے ان کا آکسیجن ماسک اتار دیا جس پر انہیں کھانسی شروع ہوگی وہ آوازیں دے رہے تھے کہ خدارا میرا ماسک واپس کرومجھے سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہے۔شہبازگل دمے کے مریض ہیں لیکن پولیس ان کے حوالے سے کیا کہہ رہی ہے انہیں یہ لگ رہا ہے کہ وہ بہانے بنا رہے ہیں جس کی پولیس نے باقاعدہ ٹویٹ بھی کی ہے اور کہا کہ ملزم شہباز شبیرکے جسمانی ریمانڈ کا معاملہ، میڈیکل بورڈ نے ملزم شہبازشبیرکو طبی طور پر صحت مند قرار دے دیا ہے ملزم حیلے بہانوں سے خود کو بیمارظاہر کر رہے ہیں اسلام آباد کیپیٹل پولیس تمام تر امور قانون کے مطابق مکمل کر رہی ہے بیماری کا بہانہ کر کے ملزم شہباز شبیرتفتیش میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں حیلے بہانوں سے قانون کا راستہ روکا نہیں جا سکتا ۔آپ کولگتا ہے کہ یہ پولیس کا ٹوئٹر ہینڈل ہے کیا آپ  سمجھتے ہیں کہ یہ کسی سیاسی پارٹی کے حوالے سے بات چیت ہے۔

 آج عدالت کے سامنے شہبازگل کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو جوڈیشل مجسٹریٹ  نے ان کا کیس سنا اورکیس سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا جس کے بعد شہباز گل  کو پولیس  نے ویل چیئرسے اٹھا کے اس طرح موبائل کے اندرپھینکا جیسے وہ کوئی انسان نہیں بلکہ جانورہو۔ 10:30 فیصلہ سنانے کا کہا گیا تھا لیکن فیصلہ سنانے میں مزید ایک گھنٹہ تاخیر ہوئی توپولیس فیصلہ آنے سے پہلے ہی ان کو لے کرروانہ ہوگئی ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ آگیا ۔عدالت نے پولیس کو کہا کہ آپ نے پہلے دو روز کا جسمانی ریمانڈ مانگا جو دے دیا گیا لیکن ملزم کی حالت کے پیش نظر اس پرعمل درآمد نہ ہوسکا اورآج آپ مزید ۸ روز کے لیے جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں اگرمریض صحت یاب ہوتا تو آپ اسے ایمبولینس میں نہ لے کرآتے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملزم کی حالت اورصحت ٹھیک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس پمزہسپتال اسلام آباد بھیجا جائے اوردوبارہ ان کا میڈیکل کرکے پیرکو عدالت میں پیش کیا جائے۔اس طرح آج عدالت نے پولیس کی درخواست کو مسترد کردیا ۔

سماعت کے دوران شہبازگل نے عدالت سے کہا کہ انہوں نے میری میڈیکل رپورٹس چھپائی ہوئی ہیں ۔ یہ رات کو دو بجے تک مجھے اسپتال کےاندر ٹیکے لگاتےرہے ہیں جس کی وجہ سے میں تکلیف میں رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرا آکسیجن ماسک انہوں نے اتاراہوا ہے۔ماسک اترنے کی وجہ سے ان کو کھانسی شروع ہوگی انہیں پانی پلایا گیا جس کے بعد آکسیجن ماسک انہیں دیا گیا اورآکسیجن سلنڈربھی عدالت کے اندر طلب کیا گیا تھا۔

آج کے فیصلے کے بعد  بنیادی طور پر اسلام آباد پولیس کو بڑا دھچکا لگا ہے وہ کیسے؟ وہ ایسے آپ کو یاد ہوگا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کل شہبازگل کیس کی سماعت تھی اور  پیر تک اس کیس کی سماعت ملتوی کردی تھی اوراسلام آباد پولیس کو یہ کہا تھا کہ آپ پیرتک ہمیں رپورٹ جمع کروائیں ۔ جبکہ جوڈیشل میجسٹریٹ جنہوں نے آج کیس کی سماعت کی  وہ اتنا کچھ ہی کر سکتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جوڈیشل میجسٹریٹ ہیں اور ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری جنہوں نے 48 گھنٹے کا پولیس کوشہبازگل کا جسمانی ریمانڈ دیا  تھا وہ ان سے اوپر والی عدالت یعنی ان سے بڑی عدالت ہے اب جو نیچے والی کورٹ ہوتی ہے وہ اپنے سے اوپر والی کورٹ کا فیصلہ تبدیل نہیں کر سکتی  جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 48 گھنٹے کے جسمانی ریمانڈ کو کینسل نہیں کر سکتے تھے یا وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ فیصلہ غلط ہے لیکن وہ یہ کرسکتے تھے کہ فی الحال پیر تک اس معاملے کو لٹکا دیں یا اس معاملے کو شہباز گل کے حق میں کردیں جب تک  اسلام آباد ہائی کورٹ جو اس ایڈیشنل سیشن جج سے اوپر ہے وہ فیصلہ نہیں کر لیتی ۔تومیرے خیال کے مطابق جوڈیشنل مجسٹریٹ جتنا میرٹ پر فیصلہ کرسکتے تھے انہوں نے کیا ہے۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں