بدھ، 3 اگست، 2022

رجیم چینج آپریشن کا مقصد پورا ہوگیا، الظواہری پرامریکی حملہ پاکستان سے کیے جانےکا شبہ

 

رجیم چینج آپریشن کا مقصد پورا ہوگیا، الظواہری پرامریکی حملہ پاکستان سے کیے جانےکا شبہ


تین دن پہلے امریکہ نے افغانستان میں ایک ڈرون حملہ کیا جس میں اس نے اپنا سب سے بڑا دشمن مار ڈالا۔ جس کے بعد اس کا جشن امریکہ بھر میں منایا جا رہا ہے جو بائیڈن نے اس کامیابی کا سہرا سجا لیا ہے لیکن اب بہت سے سوالات اٹھنا اور الزامات لگنا شروع ہو چکے ہیں کیا رجیم چینج آپریشن جس مقصد کے لیے کیا گیا تھا وہ مقصد پورا ہو چکا ہے ؟ کیا پاکستان نے ایک اور جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟  روپے کے مقابلے میں  ڈالر کی  قدر ۱۲ روپے تک کی  ریکارڈ کمی  ہوجانا اورآئی ایم ایف  کے پروگرام کا اچانک شروع ہو جانا اور تمام شرائط کا پورا ہو جانا اس حوالے سے بہت سی چیزیں اس وقت سامنے آرہی ہیں اس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکی ڈپٹی سیکرٹری اورسینٹ کام کے کمانڈرکو کالزکی کڑیاں بھی اس وقت ملائی جارہی ہیں۔انٹرنیشنل میڈیا پر کیسی خبریں گردش کررہی ہیں  اور اس حوالے سے بڑے واضح الزامات  لگائے جارہے ہیں ۔یہ الزامات  کہاں سے لگ رہے ہیں یہ بڑا دلچسپ معاملہ ہے کہ  الزامات بھی اس وقت حکومت پاکستان کے نمائندوں کی طرف سے لگ رہے ہیں اور اس کی تصدیق بھی وہاں سے آرہی ہے۔

آپ ذرا غورکریں کہ جوبھی امریکی صدر آتا ہے وہ اپنے ایک انتہائی مطلوب دہشتگرد کو مارنے کی کوشش کرتا ہے جسے وہ بعد میں کیش کرواتا ہے۔ چاہے وہ امریکی صدر اوباما ہو اس نے جس طرح سےپاکستان کے علاقےایبٹ آباد  میں کارروائی کی  اوراسے بنیاد بنا کرایک کمپین چلائی گئی کو اٹھایا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے البغدادی کو مروایا اسی طرح اب جو بائیڈن نے ایمن الظواہری کو مروانے کا سہرا اپنے سرپرسجایا ہے حالانکہ امریکہ نے یہ بات کہی ہوئی تھی کہ ہم افغانستان کی سرزمین پر ایسا کچھ نہیں کریں گے اور اب تو وہ خود مختار ملک ہے بہرحال یہ ان کے ملک کے اندرکا مسئلہ ہے یہ حملہ کیسے ہوا اورکیوں ہوا اس سے ہماراکوئی لینا دینا نہیں ۔

امریکہ کے اس ڈرون حملے کے بعد یہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ کس ملک کی فضائی حدود کو استعمال کرکے یہ ڈرون حملہ افغانستان میں کیا گیا۔ ایسے حملے کے لیے تین چیزیں ضروری ہوتی ہیں اوروہ تین چیزیں کیا ہیں یہ سمجھنےکی بات ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کا ڈرون کہاں سےاڑے گا جسے آپ اڈہ  یا بیس کہتے ہیں اب امریکہ سے تو اڑنے سے رہا کیوںکہ امریکہ یہاں سے اتنی دورہے  وہاں سے وہ کیسے اڑ سکتا ہے لیکن کچھ اس طرح کی اطلاعات تھیں  اور یہی اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ امریکہ کے پاس جدید ہتھیار ہیں شاید اسے  وہاں سے اڑا گیا ہوگا۔ دوسری خفیہ معلومات کی شیئرنگ ہے اوراس علاقے میں آپ کا مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں  کے ساتھ مشترکہ آپریشن ہے جس کی بنیاد پر یہ آپریشن کیا جاتا ہے اور تیسری چیز ہے ائیرسپیس کہ آپ کون سی ائیرسپیس استعمال کرکے حملہ کرتے ہیں۔ اب اس میں دو تین آپشنز ہیں ایک کا ایران ہے کیا ایران سے امریکا کا کوئی بھی ڈرون اس طرح سے گزر سکتا ہے  اس کا جواب ہم سب کو پتا ہے ممکنات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اس کے بعد پاکستان بچتا ہے اور دوسرا راستہ سنٹرل ایشیاء کا ہے۔ لیکن سنٹرل ایشیاء پرجتنا  اثر و رسوخ اس وقت روس اورچین کا ہے  تو اس امکان  کو بھی یکسر مسترد کردیا جائے گا تو اس میں صرف پاکستان باقی رہتا ہے۔اب یہاں پرسوالات پیدا ہوچکے ہیں  اوران سوالات کے اٹھنے کے بعد کچھ کڑیاں ملائی جا رہی ہیں ۔میں کوئی حتمی نتیجہ اخذنہیں کررہا ہوں لیکن یہ کیس آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔

وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے تقریبا ایک ہفتہ پہلے بیان دیا تھا کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہے لیکن ایک شرط رہتی ہے ۔ معاملہ یہاں پر ختم ہوگیا۔اس کے بعد آپ دیکھ لیں کہ کس طرح سے ہمارے آرمی چیف نے ونڈی شرمن جو کہ ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹس ہے ان کے ساتھ رابطہ کیا اور انہیں آئی ایم ایف کا  پروگرام بحال کرنےکا  کہا جس کے بعد عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دیکھیں یہ کام ہمارے معیشت دانوں کا تھا آرمی چیف کا نہیں یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ اس کے بدلے کچھ مانگے گا کیونکہ امریکی اپنے مفاد کوہمیشہ مقدم رکھتے ہیں اورمفت میں وہ ہماری کوئی مدد نہیں کرینگےبلکہ بدلے میں ضرورکچھ مانگیں گے۔


اب یہاں پر کچھ چیزیں  آپ نے سمجھنی ہیں انہی دنوں میں آرمی چیف کی سینٹ کام کے کمانڈراورامریکی ڈپٹی سیکرٹری سے فون پر بات بھی ہوتی ہے اوراس کے بعد آپ دیکھ لیں کہ کس طرح سے آئی ایم ایف  نےکل ایک بیان دیا ہے کہ پاکستان نے اپنے تمام شرائط پوری کردی ہیں۔ اس کے بعد اچانک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہونا اورمزید دس پندرہ روپے ڈالرکی کمی متوقع ہے۔  روپے کی قدر میں اس قدر اضافہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا اوراس معجزاتی اضافے کوبھی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

 


انٹرنیشنل میڈیا بھی اسی طرح کی رپورٹنگ کررہا ہے جس کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے الجزیرہ کی طرف سے یہ کوٹ کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے اپنی جگہ فراہم کی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نوازشریف کے قریبی نجم سیٹھی کیطرف سے ڈائریکٹ پاکستانی فوج پربھی الزام لگایا گیا ہے ایک ٹی وی شو میں وہ کہہ رہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کرخفیہ معلومات کے شئیرنگ کے بنیاد پر اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا ہے جس کے بعد امریکہ نے پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے اور اسکے بعد آرمی چیف نے بھی یہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

  میں یہ سمجھتا ہوں کہ نجم سیٹھی نے یہ بڑی بات کہہ دی ہے اداروں کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ آیا ایسا ہوا ہے کہ نہیں اس بیان کی تردید یا اعتراف فورًا کرلینا چاہیے لیکن اگراعتراف کرنا ہو تو پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ کیا ہم اس وقت کسی بھی جنگ کے متحمل ہوسکتے ہیں یا کسی اور جنگ میں اپنے ملک کو دھکیلنا کیا درست فیصلہ ہوگا اگر نہیں تو نجم سیٹھی جیسے لوگوں کی زبانوں کو لگام ڈالیں اور ملک کو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے دوچارنہ کریں محب وطن اینکرز کے خلاف تو غداری کے پرچے کٹ جاتے ہیں لیکن نجم سیٹھی جیسے لوگ کیوں ان الزامات سےکیوں مبّراہیں اوران کو ان فسادی باتوں سے استثنٰی کیوں حاصل ہے ۔ یہ بات سوچنا آپ سب لوگوں کی ذمہ داری کیوں کہ یہ میرے اورآپ کے ملک کی سلامتی اور امن کا مسئلہ ہے۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں