جمعہ، 16 ستمبر، 2022

فوجی قیادت ریڈارپرکیوں؟ کپتان،آرمی چیف اورجنرل فیض کی ملاقات کا دعوٰی

 

فوجی قیادت ریڈارپرکیوں؟ کپتان،آرمی چیف اورجنرل فیض کی ملاقات کا دعوٰی

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات کے چرچے تو ہیں لیکن اب اس ملاقات کے بعد ایک اور انتہائی اہم ملاقات  جس میں دو بڑے نہیں بلکہ تین بڑوں نے شرکت کی یہ بڑا اہم اور بہت بڑا دعویٰ اس وقت سامنے آیا ہے ۔ جنرل فیض حمید جوکہ اس وقت کور کمانڈربہاولپورہیں اور اس سے پہلے وہ کورکمانڈر پشاور تھے اورڈی جی آئی ایس آئی تھے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حکومتی اتحاد کی توپوں کا رخ ہمیشہ جنرل فیض کی طرف ہوتا ہے ۔جنرل باجوہ ،جنرل فیض اور سابق وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ہوئی ہے جس کے بعد حکومتی اتحاد کی چیخیں اس وقت آسمان پر ہیں۔اس ملاقات کے بعد ہواؤں کا رخ کس طرح سے تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور ان ہواوں کے رخ کو تبدیل ہوتا دیکھ کر بہت سے لوگوں کی چیخیں مریخ تک کیسے پہنچ چکی ہیں۔

 پاکستان کی افواج جو کہ انتہائی منظم اورایک انتہائی پروفیشنل ادارہ ہے اور یہ اس ادارے کا پروفیشنل ازم ہے جس کی وجہ سے ادارہ اور پاکستان بچے ہوئے ہیں اس ادارے کے اندر ایک پرسیپشن پیدا کر کے فوج میں انتشارپیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومتی اتحاد جنرل فیض پرعمران خان کی پشت پناہی کا الزام لگاتے آرہے ہیں۔ عمران خان ان سے سیاسی طور پر قابو نہیں ہوپا رہا تو ظاہری بات ہے انہوں نے اپنی شکست توتسلیم کرنی نہیں ہے۔ اورنہ ہی انہوں نے یہ بات ماننی ہے کہ ان کی سیاست کا جنازہ تو نکل چکا ہےاوران کی سیاست  قصہ پارینہ بن چکی ہے انہوں نےعمران خان کو نکال کر اپنی سیاست کے تابوت میں آخری کیل خود ٹھونکے ہیں  لیکن یہ بات تسلیم نہیں کرتے حالانکہ انہیں بھی یہ بات بخوبی معلوم ہے۔ اب اپنی ہزیمت پردہ ڈالنے کے لیے یہ سارے کے سارے الزامات تو کسی پر لگانے ہیں اوراپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے ملبہ کسی نہ کسی پرتو ڈالنا ہے ۔آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک کورکمانڈر اپنے چیف یا اپنے ڈیپارٹمنٹ کی پالیسی کو سائیڈ پر رکھ کے کسی اور بیانیہ پر چلا جائے یا پھرکسی کی پشت پناہی کرے ۔فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے اور یہ صرف اور صرف ایک جنرل کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔اس سے پہلے بھی  نجم سیٹھی اور دوسرے نوازشریف کے جوترجمان بنے ہوئے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندرایک تفریق پائی جاتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے اندرسے عمران خان تک باتیں پہنچ جاتی ہیں۔اسٹیبلشمنٹ میں ایک گروہ ہے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اٹک پار سے ہمیں کچھ شکایت ہے پھر مولانا کی پریس کانفرنس جس میں انہوں نے کہا کہ راولپنڈی بھی جائیں گے اور احتجاج بھی کریں گے ہمیں پتہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی کچھ لوگ ہیں جو عمران خان کے ہمدرد ہیں اگرچہ  نو اپریل کے بعد پی ایم ایل این نے جنرل فیض کو نہیں للکارا تھا لیکن جیسے جیسے عمران خان اور عمران خان کی مقبولیت ان کے قابو سے باہر نکلی اور اس نےتمام تر ریکارڈ توڑے تو سارے حالات میں ان کوالزام لگانے کے لیے کوئی توسیوفیس چاہیے تھا  جس کوانہوں نے بلی کا بکرا بنانا تھا۔

اس سلسلے میں مریم نواز کا کل والا بیان بھی بڑا اہم ہے جس میں مریم نوازنے کوچ والابیان دیا کہ عمران خان نے ان سونگرتو کروا دیا لیکن عمران خان کا کوچ کون ہے ذرا اس کا نام توبتائیں یہ کوچ ہٹ جائے تو عمران خان کا ہم تین دن میں حل کرلیں گے۔ ان تمام تر چیزیں کوپہلے سمجھنا پڑے گا ۔ انہیں اس وقت عمران خان اور طاقتور لوگوں کے درمیان ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات پرشدید تحفظات ہیں اوریہ اسٹیبلشمنٹ پرٹوٹ پڑنا چاہتے ہیں لیکن یہ ایسا کرنہی پارہے کیونکہ ان کی مجبوریاں ہیں ۔یہ ایک مرتبہ پھر جنرل فیض کو اس میں ملوث کرنا چاہتے ہیں اورانہیں متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔ نام نہاد ان  کے دعویدار ہیں اور روزانہ کوئی نہ کوئی نیا دعویدارسامنےآ جاتا ہے کوئی کہتا ہے کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کو آرمی چیف بنا دینا ہے اور موجودہ چیف کو کوئی اورعہدہ دے دینا ہے۔ اس طرح کی اتنی چیزیں اس وقت مارکیٹ میں گردش کررہی ہیں کہ آپ کی سوچ ہے اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے اس میں مریم نواز کا اسٹریٹیجک میڈیا سیل بہت زیادہ اہم ہے اوراب ایک اور اسی طرح کا دعویٰ ایک نام نہاد دعویدار کی طرف سےسامنے آیا ہے  کہ عمران خان اورجنرل باجوہ کے درمیان ایک ملاقات تو پہلے ایوان صدرمیں ہوچکی تھی لیکن اب ایک اور ملاقات آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان ہوئی ہے اور یہ ملاقات پچھلی ملاقات سے زیادہ سنسنی خیز ہے یہ دعوٰی اسد قیوم کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اور جس انداز میں یہ ملاقات ہوئی ہے یہ بہت بڑی خبر ہے اور اسے بہت بڑی خبر کے طور پر سامنے پیش کیا جارہا ہے اوراس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس ملاقات کے بعد ہوا کا رخ تبدیل کیوں ہوا،کامران خان  انٹرویو پہلے نہیں کر سکتے پھرمیچ فکسنگ کر کے ایک انٹرویو چلایا گیا۔ پھرانہوں نے دوسری ملاقات کا احوال سامنے رکھا لکھا ان کا کہنا تھا  کہ ایک کورکمانڈرآرمی چیف  کی گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے اتنی باریک تفصیل ان تک کیسے پہنچی یہ من گھڑت بات ہے یا نہیں ہے اس کا جواب تو اس کی تردید آئے گی تو پتہ چلے گا ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جو کورکمانڈر آرمی چیف کی گاڑِی ڈرائیوکررہے تھے وہ اور کوئی نہیں بلکہ  جنرل فیض حمید تھے ۔یہ ملاقات تین بڑوں کے درمیان تھی جو کہ علیحدگی میں ہوئی ۔اب اس میں یہ بیانیہ بنانے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ملاقات میں جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانے پربات چیت ہوئی ہے۔ جنرل فیض حمید اپریل ۲۰۲۳میں ریٹائر ہو جائیں گے اوراگلا الیکشن  ہر حال میں  اپریل سے قبل کروایا جائے گا عمران خان اقتدارمیں آئیں گے تو وہ اپنے ہاتھوں سے جنرل فیض کواگلا آرمی چیف لگا دیں گے جنرل باجوہ اس وقت تک ایکسٹینشن لے کرکام کرتے رہیں گے۔دوآپشنزڈسکس ہوئے ہیں یہ دعویٰ آرہا ہے انہیں میں کوٹ کررہا ہوں ۔"کہ حکومت کو یا تو اگلے کچھ ہفتوں میں گھر بھیج دیا جائے جنوری فروری تک الیکشن ہو جائیں یا پھر دسمبر میں اس حکومت کو چلتا کیا جائے انہیں گھر بھیج دیا جائے اور پھر مارچ تک الیکشن ہو جائیں دونوں صورتوں میں جنرل فیض کو عمران خان  چیف بنا دیں گے یعنی اس طرح آپ اس وقت ایک طرح کی میچ فکسنگ کا الزام لگارہے ہیں نہ صرف عمران خان پر بلکہ باقیوں پر بھی کہ یہ سارا ایک پورا پلان بنایا جارہا ہے البتہ عمران خان نے صرف ایک بات کی جن سے انھیں تکلیف ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ جو جماعت مینڈیٹ  لے کر آئے وہی آرمی چیف کی تعیناتی کرے۔ عمران خان کی اس گیم اوراس گیند کی کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی  اور بہت سے لوگ سمجھ نہیں پارہے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔

چند دن پہلےایوان صدرمیں ہونے والی ملاقات کا جودعوٰی کیا گیا اس کی تصدیق اسحاق خاکوانی اور پاکستان تحریک انصاف کے اپنے سرکل کے لوگوں نے بھی کی تھی لیکن یہ ملاقات جس میں تین بڑوں کی ملاقات کا دعوٰی کیا جارہا ہے اس کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔یہ جان بوجھ کر حکومتی اتحاد ایک ایسا بیانیہ تیارکرنا چاہتی ہے تاکہ عمران خان مستقبل قریب میں جنرل فیض کو آرمی چیف نہ بنا سکیں اوراگربنائیں تو ہمارا بیانیہ جو ہم نے پہلے ہی تیارکررکھا اس کو عوام کے سامنے رکھا جائے کہ یہ میچ فکسنگ تو الیکشن سے قبل ہی تین بڑوں کی ملاقات میں طے پاچکی تھی کہ عمران خان اقتدارمیں آکر جنرل فیض کو آرمی چیف بنائیں گے۔حالانکہ یہی وہ لوگ ہی جو آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازعہ بناتے ہیں اورادارے کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرتے ہیں اس لیے عوام سے التماس ہے کہ ان جھوٹے مکاروں اورملک دشمن غداروں کی ملک دشمن سرگرمیوں سے خبرداررہیں یہی وقت کا تقاضا بھی ہے اورضرورت بھی۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں