منگل، 6 ستمبر، 2022

اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کوریلیف،امپورٹڈ حکومت پھنس گئی

 

اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کوریلیف،امپورٹڈ حکومت پھنس گئی

آج عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک بہت بڑا ریلیف ملا ہے اسلام آبادہائی کورٹ میں عمران خان کیخلاف جوایک مقدمہ چل رہا ہےجس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں  اس کوتحریک انصاف نے چیلنج کیا ہوا ہے اوراخراج مقدمہ کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا ہے اس مقدمے میں عمران خان کے وکلاء آج عدالت میں پیش ہوئے اس مقدمے کا بیک گراونڈ بتا دوں کہ زیبا چوہدری کے حوالے سے عمران خان نے جو تقریر کی تھی اس کی وجہ سے ان پر یہ مقدمہ درج ہوا جس میں کچھ دہشت گردی کی دفعات بھی  لگائی گئیں۔

 آج چیف جسٹس اطہر من اللہ  کی سربراہی میں اس کیس کوسنا گیا عمران خان کے وکیل بھی آئے گا اورحکومت کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ہائی کورٹ جہانگیرجدون بھی تھے ۔عمران خان کے وکلاء کی جانب سےاس بات پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہےکہ پولیس نے عمران خان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا ہے اس میں  دہشت گردی کی نئی دفعات بھی شامل کی ہیں۔اس پرچیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا پولیس نے عمران خان کے خلاف  چالان  جمع کروایا ہے تو جہانگیرجدون کی جانب سے بتایا گیا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ میں وہ شامل تفتیش نہیں ہوئے اوروہ اس میں تعاون نہیں کر رہے ہیں مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے۔ عمران خان تک  ہماری رسائی ممکن نہیں ہے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ یہاں پر یونیفارم میں کھڑا پولیس اہلکارریاست ہے اورہرشخص پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ تعاون کرے اگر پولیس سے غلطی بھی ہوئی تو اس  پرعدالت فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم قانون پر عمل نہیں کریں گے تو باہر کیسے کسی کوقانون پر عمل درآمد کرنے کا پابند کیا جا سکتا ہے ۔اس میں عدالت نے کچھ ریمارکس دئیے اور انہوں نے ہدایت بھی کی کہ عمران خان شامل تفتیش ہوں اوراپنا بیان ریکارڈ کروائیں جس پر عمران خان کے وکیل  نے کہاکہ عمران خان شامل تفتیش بھی ہونگے اوربیان بھی ریکارڈ کروائیں گے۔

اس کے بعد عمران خان کے وکیل  سے عدالت نے پوچھا کہ آپ نےایک متفرق درخواست بھی دائر کی ہے تو اس پرانہوں  نے کہا جی ہم نے دائر کی ہے اور اس پر ہمارا مؤقف ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے اور بدنیتی پر مبنی ہے اس پر ان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے خلاف  دہشت گردی کی دفعات سے متعلقہ ٹرائل کورٹ نے ابھی ان کو اس کے بارے میں بتایا ہے تو انہوں نے یہ کہا کہ ہمارے اوپر دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا ہے ہم آپ کی کورٹ میں دہشت گردی کا لیبل لگا کر کھڑے ہیں ۔ان  کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے اس کیس میں نئی دفعات شامل کیں تاکہ کیس زیادہ مضبوط ہوسکے اورعمران خان کو سزا دلوائی جاسکے تو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی وکلاء کے بقول یہ تو اب کریمنل کیس رجسٹرہو چکا ہے کیونکہ انہوں نے مزید تین دفعات شامل کی ہیں اس پر عمران خان کے سلمان صفدرنے عدالت کوبتایا کہ  یہ ناقص الزام ہے  ہم بالکل  شامل تفتیش ہونگے اور انہوں نے عدالت کویقین دہانی کروائی  کہ عمران خان اس کیس میں بھرپور تعاون کریں گے تو اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگرکوئی وہاں جانے کی اجازت نہیں دیتا تو ٹھیک ہے پھر قانون اپنا راستہ خود بنائے گا اگرتفتیشی افسر کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتا تو آئندہ ہفتے اس بارے میں بھی آپ ہمیں آگاہ کریں۔اگرانہوں نے تعاون نہ کیا تو عدالت ان کوانٹرٹین نہیں کرے گی ۔تفتیشی افسر آیندہ ہفتے سماعت پر بتایں کہ دہشت گردی کی دفعہ لگتی بھی ہے یا نہیں لگتی ۔ان کوعدالت نے  آج چالان جمع کرنے سے روک دیا اورکہا کہ تفتیشی افسر پہلے اپنے اختیارات کا مناسب انداز میں استعمال کرے پھر رپورٹ جمع کروائےاور یوں یہ سماعت پندرہ ستمبر تک ملتوی ہوئی ہے۔

 عمران خان کے لئے یہ ایک بہت بڑا ریلیف ہے کیونکہ ان پر جو دہشت گردی کی دفعات لگی ہوئی ہیں بظاہرایسالگ رہا ہے کہ عدالت ان کو اڑا دے گی لیکن دوسری طرف جو عمران خان کی فیصل آباد کی تقریر کے بعد سے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔کچھ لوگوں کو خیال ہے کہ نوازشریف اورعمران خان اندرسے ایک پیج پرہیں اورنوازشریف یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان تھوڑی نرم دلی کا مظاہرہ کریں اورانہیں پاکستان آنے دیں تو ملک کراینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو مل کربڑھاتے ہیں لیکن میراایسا خیال بالکل نہیں ہے کہ وہ دونوں اندرسے ملے ہوئے ہیں اورعمران خان کچھ ایسا کررہے ہیں۔

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں