جمعرات، 8 ستمبر، 2022

عدالتی میدان سج گیا،کپتان پر ۲۲ستمبر کو فردِجرم عائد کرنے کی تیاری،پی ٹی آئی بھی تیار

 

عدالتی میدان سج گیا،کپتان پر 22ستمبر کو فردِجرم عائد کرنے کی تیاری،پی ٹی آئی بھی تیار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے ۔ اسلام ہائی کورٹ میں اڑھائی گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیاگیا اور ججزنے 5 منٹ وقفہ کیا اور بیس منٹ کے بعد واپس آکر فیصلہ سنا دیا ہے ۔عدالت کی طرف سے جو فیصلہ آیا ہے وہ توقعات اور اندازوں کےبالکل برعکس تھا۔ جس کی وجہ سے ہر طرف میڈیا کے اندر ایک مایوسی نظر آرہی ہے کہ عمران خان پر فردِ جرم عائد کی جاتی ہے تواس کے بعدپھر کیا ہوگا اور فرد جرم سے پہلے بھی عمران خان کے پاس  کچھ آپشنزہیں جن کو میڈیا نہیں بتارہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے خلاف فیصلہ آگیا ہے تو22 تاریخ تک عمران خان کو دو ہفتوں کا وقت دیا گیاہے۔ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ دو ہفتوں کے بعد فردجرم عائد کردی گئی  تو عمران خان کوجیل ہوجانی ہے ڈس کوالیفائی ہوجانا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔میں آپ کو بتاؤں گا کہ عمران خان کے پاس راستہ بھی بچا ہے۔

 عمران خان کے خلاف دو ہفتوں کے بعد بائیس ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی اور آپ کومعلوم ہی ہو گا کہ عمران خان نے 9 حلقوں میں 25 ستمبر کوالیکشن لڑنا ہے  یعنی 22 ستمبر کو عدالت نے فیصلہ کرنا ہے جبکہ25 ستمبرکو عوام کی عدالت فیصلہ کرے گی۔ حامد خان جوکہ عمران خان کے وکیل ہیں انہوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ ہمارا ہرگز مقصد آپ کی توہین کرنا نہیں تھا جس پرعدالت نے کہا کہ آپ معاملے کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں رہےجس پر انہوں نے کہا دیکھیں ہم بار بارجس پچھتاوے اور ندامت کا اظہار کر رہے ہیں وہ یہی بات ہے۔


پھرجسٹس بابرستار نے کہا کہ ہم آپ کےکلائنٹ کے خلاف فیصلہ آج دے دیں تو کیا عمران خان کھڑے ہوکر کہیں گے کہ میں ان پانچ ججز کے خلاف بھی ایکشن لوں گا ۔اس کیس میں عدالت کے 3 معاونین تھے  حامد خان کے بعد اٹارنی جنرل اشتراوصاف آئے جو کہ وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔آج  وفاقی حکومت نے عدالت کے سامنے کہا کہ عمران خان کو بالکل معاف نھیں کرنا چاھئے 2013 میں بھی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کیس آیا تھا لیکن عدالت نےان کو معاف کر دیا تھا اس لئے عمران خان اب معاف نہیں کیا جانا چاہئے ۔عمران خان نے بیان حلفی کے بغیر جواب جمع کروایا جس کی کوئی حیثیت نہیں اب جیسے ہی اشتراوصاف کے دلائل مکمل ہوئے جو اس بات پراصرارکررہے تھے کہ عمران خان کو بالکل نہ چھوڑیں کیونکہ یہ عدالت اوراس کے مقام کے لئے بہت ضروری ہے ۔عدالت نے تین معاونین مقرر کیے تھے جن میں سینیئر قانون دان منیراے ملک ، مخدوم علی خان اورپاکستان بارکونسل کےنمائندے اخترحسین شاہ شامل تھے

سب سے پہلے منیراے ملک روسٹرم پرآئے اورانہوں نے کہا کہ دیکھیں کسی کے الفاظ سے عدالت کو کوئی فرق نہیں پڑتا میرا نہیں خیال کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں پر کوئی اثر انداز ہونے کی عمران خان نےکوشش کی گئی ہے تو ان کے خیال میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم ہو جانی چاہیے اور ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے عدالت کو شوکاز نوٹس واپس لینا چاہیے یہ ایک سینئروکیل کی رائے تھی۔یہاں پر ایک بات سے آپ کو آگاہ کرتا چلوں کہ منیراے ملک نوازشریف دورمیں اٹارنی جنرل رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی عمران خان کی ہمدردی والے یا اس کی پارٹی کے وکیل ہیں ۔اس کے بعد مخدوم علی خان آئے اورانہوں نے کہا کہ عمران خان کو ایک اور موقع ملنا چاہیے جس میں وہ غیرمشروط معافی مانگیں اورمیرے خیال میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔مخدوم علی خان نوازشریف کے وکیل بھی رہ چکے ہیں اوران کا نام موجودہ اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے  خود تجویز کیا تھا۔ان دونوں معاونین نے کہا کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

اس کے بعد اختر حسین شاہ روسٹرم پر آئے انہوں نے کہا کہ عدالت کو عمران خان کو بالکل معاف نھیں کرنا چاھئے۔ عمران خان کو غیر مشروط معافی مانگنی چاہیے تھی جو انہوں نے نہیں مانگی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔عدالت کے جج صاحبان جیسے ہی اٹھنے لگے تو عمران خان اپنے نشست سےکھڑے ہوئے اس سے پہلے بھی وہ بار بار اپنے وکلا کو بتا رہے تھے کہ میں روسٹرم پر جا کے بات کرنا چاہتا ہوں میں وضاحت دینا چاہتا ہوں لیکن ان کے وکلاء نے عدالت سے استدعا نہیں کی کہ عمران خان آپ سے بات کرنا چاہتا ہے یہ ایک حقیقت تھی جو آپ کو بتانا بہت ضروری تھا جیسے ہی عدالت سے جج صاحبان اٹھنے لگے تو عمران خان اپنی نشست سے اٹھ  کھڑے ہوئے اورچیف جسٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں بات کرنا چاہتا ہوں میری بات سنیں میں کچھ وضاحت دینا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس  نے کہا کہ  ہم نے آپ کے وکلا کے دلائل سن لیے ہیں اورہمیں مزید اس پرآپ کی بات سننے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کے بعد جج صاحبان اٹھے اورپانچ منٹ کا کہہ کراندر چلے گئے۔

 اس کے بعد عمران خان  نے عدالت کے اندر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو بھی کی اور انہوں نے کہا کہ میں بات کرنا چاہتا تھا کوئی اس کا بیک گراؤنڈ تھا کوئی اس کا تناظر تھا مجھے موقع ہی نہیں دیا گیا میں نے کوئی خلاء میں توبات نہیں کی ۔اس کے بعدانہوں نے کہا آئی ایم ایف کی رپورٹ پڑھ لیں کہ اس ملک میں الیکشن کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔بیس منٹ بعد جج صاحبان واپس عدالت میں آئے اور عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا کہ ۲۲ستمبر پرعمران خان کے خلاف فردجرم عائد کی جائے گی عدالت نے عمران خان کو بھی ۲۲ ستمبر کو طلب کرلیا لیکن اپنے فیصلے میں عدالت نے ایک دلچسپ پوائنٹ بتایا ہے وہ کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ عدالت نے کہا ہے کہ بائیس ستمبر تک یا پروسیڈنگ کی کسی بھی اسٹیج پر عدالت سے غیرمشروط معافی مانگ لی گئی تو عدالت وہ معافی قبول کرلے گی ۔

آج مخدوم علی خان نے بھی عدالت کے سامنے معافی کے متعلق کہا تھا کہ  ندامت اور پچھتاوے کے الفاظ  استعمال کرلیے گئے ہیں تو اس کو آپ معافی ہی سمجھیں کوئی غیرمشروط معافی کا لفظ استعمال کرنا ضروری نہیں ہے لیکن عدالت کے اس فیصلے کے  لگ رہا ہے کہ عدالت یہ چاہتی ہے کہ عمران خان غیرمشروط طورپر معافی مانگیں۔ اس کے بعد عدالت معافی دے گی ۔ ایک آپشن تو عدالت نے خود ہی بتا دیا ہے کہ جناب آپ غیر مشروط طورپرمعافی مانگی میرا خیال ہے جوکہ کسی بھی سٹیج پر قبول ہو جائےگی۔ دوسرا یہ ہے کہ یہ کیس از خود نوٹس کی بنیاد پرہورہا ہے اور عمران خان  نے اس پردرخواست بھی دائر کی تھی اور اب بھی آپشن موجودہے جو خواجہ آصف  کی مثال ہمارے پاس موجود ہے کہ چونکہ یہ فیصلہ ہائی کورٹ دے رہی ہے اور ہائی کورٹ سے اوپر سپریم کورٹ موجود ہے اور اگر یہ فیصلہ وہاں پہ چیلنج ہوگیا تو سپریم کورٹ عمران خان کے حوالے سے اس فیصلے کوختم یا معطل کر سکتی ہے۔

فرد جرم کا مطلب کیا ہوتا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔اس  کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص جوالزام ہے جیسے عمران خان پر توہین عدالت کا ہے اس پر چارج  کردیا جائےیعنی ان کے اوپر جو الزام ہے وہ پڑھ کے سنایا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ یہ یہ جرم آپ نے کیا ہے اس کے تحت آپ کوسزا دی جائے گی اور یہ سزا ہو گئی یعنی اب عمران خان کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہو جائے گااور ٹرائل شروع ہونے کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ آپ کو سزا دی جانی ہے یا ہوسکتا ہے کہ ٹرائل کے بعد آپ کو معاف کردیا اورآپ بری ہوجائیں۔

عدالت کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے تحریک انصاف اس کے لیے تیار ہے آج وزیراعلی خیبرپختونخوا موجود تھے وزیر اعلی پنجاب موجود تھے آج فواد چوہدری کے بیانات کا حوالہ بھی کارروائی کے دوران دیا گیا ان کا ایک ٹویٹ بھی سامنے آیا ہے 130 سے ڈائریکٹ  190 وہ عدلیہ کی ریٹنگ کی بات  کر رہے ہیں اورپھراب ڈاکٹر ارسلان خالد نےٹویٹ کیا ہے کہ توہین الفاظ سے نہیں اعمال سے ہوتی ہے ۔

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں