جمعہ، 14 اکتوبر، 2022

 

انسانیت شرماگئی،نشترہسپتال ملتان کی چھت پرلاشیں ہی لاشیں،حکومت کا انکوائری کا حکم

ملتان کے نشتر ہسپتال کی چھت پر 500 لاوارث لاشوں کامعاملہ، ایک ایسا کیس جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے یہ گلی سڑی اور لاوارث لاشیں  کس کی ہیں اورنشتراسپتال کی چھت پر یہ لاشیں کیا کر رہی تھیں اب یہ معمّہ حل ہوتا جا رہا ہے۔اس دلخراش معاملے کا میڈیکل طلباء نے  بھانڈا پھوڑا ہے ۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے بھی انکوائری کا حکم دے دیاہے ۔جوں جوں وقت گزررہا ہے  بہت سی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ یہ مردہ اشخاص کون تھے؟ اس کا اصل مقصد کیا تھا؟ یہ واقعہ کب کا ہےاور کب سے ہورہا ہے ؟ سوشل میڈیا پرگردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز انتہائی دلخراش ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہےکہ بہت سے انسانی اعضاء اورگلی سڑی لاشیں نشتر ہسپتال ملتان کی چھت پرپڑی ہیں اس سب کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اس وقت ہمارے پاس کچھ تفصیل موجود ہے جو آپ کے سامنے رکھنی ہے۔

 یہ معاملہ اتنا سنگین ہے اس نے سوشل میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور اس وقت ہر جانب اس پر بات ہو رہی ہے ۔ ویڈیو کلپس اس قدرڈراونے اورانسانیت سوز ہیں کہ ان کو دیکھنا بھی ایک عام انسان کے لیے بہت مشکل ہے۔ویڈیوزاورتصاویرمیں کمرے انسانی اعضاء سے بھرےپڑے ہیں اورچھت پر جگہ جگہ لاشیں ہی لاشیں ہیں جن میں کچھ خواتین کی بھی شامل ہیں ۔ان مسخ شدہ لاشوں کے بارے سوالات جنم لےرہے ہیں کہ ان تعفن زدہ لاشوں کی اب تک بد بو کیوں نہیں آئی اورکب سے اس معاملے کو دبایا جارہا ہے اوراب کیوں یہ منظر عام پر آ رہا ہے پہلےکیوں سامنےنہیں آیا ہے ۔اب سب سے پہلے وزیر اعلی پنجاب پرویزالٰہی نے نشتر ہسپتال ملتان  کی چھت پر لاوارث لاشیں پھینکنے کے واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور اس سارے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن  سے رپورٹ طلب کرلی ہے چوہدری پرویز الٰہی نے اس افسوس ناک واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ  ذمہ دارعملے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ انسانی لاشیں چھت پر پھینک کر غیر انسانی فعل کا ارتکاب کیا گیا لاشوں کی بے حرمتی کا واقعہ ناقابل برداشت ہے ۔

ابتدائی تحقیقات کےبعد جہاں کچھ چیزیں سامنے آ رہی ہیں وہیں افواہوں کا بازار بھی گرم ہے اوران لاشوں سے متعلق بہت سی قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ جس کے بعد پنجابا حکومت نے گزشتہ رات انکوائری کا حکم بھی دے دیا ہے  نشترہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ کو  تین دن کے اندر اندر ہی وضاحت پیش کرنے کا حکم دیاتھا۔ پنجاب حکومت کی جانب سےنشترہسپتال کے ایم ایس کو لکھے گئے خط میں تین دن کا وقت دیا گیا تھا اوراب جو ابتدائی تفتیشی رپورٹ سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہ نامعلوم افراد کی لاشیں ہیں جو مقامی پولیس نے میڈیکل کے طلباء کے تعلیمی مقاصد کے لیے نشترمیڈیکل یونیورسٹی کے حوالے کی تھیں۔

 وزیراعلٰی پنجاب کے بیٹے مونس الہٰی نے  سوشل میڈیا پر نشتر میڈیکل کالج کی جانب سے دیا جانے والا ابتدائی موقف بھی آگے شیئر کیا  ۔ مونس الہٰی  کے مطابق میڈیکل یونیورسٹی کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے اپنے جواب میں وضاحت کی کہ یہ لاشیں نامعلوم افراد کی تھیں جو پولیس نےنشتر اسپتال اور نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے حوالے اس مقصد کے لیے کیں تاکہ ان کا پوسٹ مارٹم کیا جا سکے اورظاہری بات ہے یونیورسٹی کے طلباء ان پرسیکھ سکیں ۔

اناٹومی جسمانی اعضاء کے بارے میں علم حاصل کرنے کا مضمون ہے جو  میڈیکل کالجز میں پہلے دو سال کے دوران ایم بی بی ایس کرنے والے طلباء کو پڑھایا جاتا ہے جب کہ پوسٹ مارٹم وہ عمل ہے جس میں موت کی تمام وجوہات کا تعین کیا جاتا ہےاور ہر طرح سے جسم کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اس وضاحت کے مطابق پولیس کی جانب سے لاشوں کو حوالےکرنے کے بعد کہا گیا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو ان کو ایم بی بی ایس طلبہ کے تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اس وضاحت میں  ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاشیں گل سڑرہی تھیں اوران سے بدبو آرہی تھی اس لیے ان کو نہ ہی فریزر میں  رکھا جا سکتا تھا اور ان کی حالت ایسی تھی کہ ان کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کرنا بھی ناممکن تھا ۔ہیڈ آف اناٹومی کے مطابق ان لاشوں کے گلنے سڑنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کے جسم سے ہڈیاں الگ کر لی جاتی ہے جن کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ان لاشوں کو دفنا دیا جاتا ہے اس کی لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی معاملہ نہیں ۔یہ اب ان کا موقف آیا ہے جو وہ  بتا رہے ہیں۔

 اطلاعات ہیں کہ اس معاملے پر ایک پریس کانفرنس بھی ہوگی اورمیڈیکل طلباء کی جانب سے بھی  بہت سی چیزیں سامنے آئی ہیں جن کو طلباء نے ایکسپوزکیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی آپ کو بتادوں کہ کسی بھی ٹیچنگ ہسپتال میں دوطرح کے مردہ خانے ہوتے ہیں ۔ایکسپرٹ کے مطابق ایک اناٹومی کا شعبہ ہوتا ہے جبکہ دوسرافرینزک کا ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے جہاں پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے ۔اصول کے مطابق جن افراد کی مرنے کے بعد شناخت نہیں ہو پاتی ان کا پوسٹ مارٹم کرنےکے بعد ان کی لاشوں کو امانتاً مردہ خانوں میں رکھاجاتا ہے اور اگر پولیس میت کے ورثاء تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو لاشیں ان کے حوالے کر دی جاتی ہیں لیکن جن لوگوں  کی شناخت نہیں ہو پاتی وہ بدستور مردہ خانے میں موجود رہتی ہیں اور اسی طرح یہ سسٹم چلتا رہتا ہے اور قانونی طور پر دو ہفتے تک ایسی لاشوں کی شناخت کا انتظار کیا جاتا ہے جس کے بعد پولیس مختلف ذرائع سے لواحقین تک پہنچنے کی کوشش کرنے کی پابند ہوتی ہے اس مدت کے بعد ان لاشوں کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم عمومی طور پر ایسی ناقابل شناخت لاشوں کو چار ہفتے تک رکھا جاتا ہے جس کے دوران لاشوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لئےکیمیکل لگایاجاتا ہے اور سٹوریج  میں رکھا جاتا ہے۔

 اب یہ بہت بڑا سوال ہے کہ اس طرح سے ان لاشوں کو  چھت پر کیوں پھینکا گیا اگر وہ  تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کی جاسکتی تھیں تو اس طرح انسان کی تذلیل کیوں کی گئی اگران کا کوئی وارث نہیں مل رہا تھا توان کو دفنادیا جاتا اس طرح ان کو چھت پر پھینکنا ایک اسلامی ملک میں اورایک مسلمان کے لیےکسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ۔ اس میں مزید تحقیقات بھی ہوں گی دیکھیں بےحس معاشرے اس پرکیا ردعمل دیتا ہے۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں