ہفتہ، 15 اکتوبر، 2022

متنازعہ بیان :عمران خان کا کراراجواب،امریکی صدرجوبائیڈن کولینے کے دینے پڑگئے

 

متنازعہ بیان :عمران خان کا کراراجواب،امریکی صدرجوبائیڈن کولینے کے دینے پڑگئے

امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سےایک بیان دیا گیا ہے یہ بیان کس قدر خطرناک اور شدید ہے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس بیان کے بعد اس کے اثرات کیا ہونے والےہیں اس بیان کو ہمیں کچھ ایسے کمنٹس اورایسے تفصیلات کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا جس سے ہم پوری گریٹرگیم کوسمجھ سکیں کیونکہ جو نیو ورلڈ آرڈر ہے اورگریٹ امریکن گیم ہےاس کے ساتھ ہی ساتھ اڑتالیس صفحات کی امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی کی پالیسی ہےاگرہم اس کےتناظرمیں امریکی صدرجوبائیڈن کےاس بیان کو جو کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سےانہوں نے دیا  ہے اس کودیکھیں اور اس کے بعد جو عمران خان نے ردعمل دیتے ہوئے بیان دیا ہےاس کو دیکھیں تو معاملات سمجھ آجاتے ہیں۔ کچھ ایسے عوامل ہیں اور کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے یہ بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ یہ جو رجیم چینج آپریشن ہمارے ملک میں کیا گیا اوراس وقت جو معاشی اور سیاسی عدم استحکام لایا جارہا ہے کہیں یہ ساری گیم ہمیں ہمارے ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کی نیت سے تو نہیں تھی کیونکہ امریکہ کے صدر نے یہ بیان کوئی ایسے ہی اتفاقاً تونہیں دیا بلکہ یہ بیان وائٹ ہاؤس کے آفیشل ویب سائٹ کے اوپر امریکی صدر کی طرف سے ٹرانسکرپٹ کے طور پر بھی سامنے آئی ہے ۔

امریکی صدرجوبائیڈن نےپاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ پاکستان خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے کیونکہ اس کاایٹمی پروگرام بےترتیب ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی صدرجوبائیڈن نےڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے چین سے متعلق ایک سوال پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔امریکی صدرنے کہاکہ میرا خیال ہے پاکستان خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جوبائیڈن نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بے ترتیب ہے انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں بہت کچھ ہورہا ہے لیکن امریکہ کے پاس  صورتحال تبدیل کرنے کے مواقع موجود ہیں ۔امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کی جو پالیسی ہے اوریہ اڑتالیس صفحات کا ایک دستاویزہے جس میں امریکہ نے  پاکستان کو ایک اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر شامل نہیں کیا ہوا۔ اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں کہ امریکہ بڑے واضح طورپر کہتا ہے کہ اگرآپ امریکہ کے مفاد کےخلاف جانے والے ملک کے ساتھ ہیں توآپ گھاٹے میں ہیں اورشکست آپ کے مقدرمیں ہے۔ ان سخت لائنز کے ساتھ انہوں نے اپنی سیکیورٹی کی پالیسی بنائی ہے۔اب پاکستان پر جو تنقید ہے  یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اگرعمران خان کے دورِحکومت میں دیکھا جائے تو شروع میں جب عمران خان آئے اوردوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ تھا اس نے پاکستان کولتاڑا اور پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن سامنے چونکہ سامنے ایک غیرت مند انسان تھا جس نے اسے اسی زبان میں یہ سوچے بغیر یہ ہماراوینٹی لیڑ  ہے ایسا منہ توڑ جواب دیا تھا۔اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ ٹرمپ عمران خان کا معترف ہوا وہی ٹرمپ عمران خان کو پروٹوکول دیتا رہا اوروہی ٹرمپ سیدھی لائن پرآیا کیونکہ عمران خان جو بات کرتے ہیں کہ یہ جومغرب کی سوچ ہے کہ آپ جتنا ان کے نیچے لگیں گے یہ اتنا آپ کو نیچےلگائیں گےسوفیصد سچی ہے۔ امریکی صدرکا یہ بیان اس لیے بہت خطرناک ہے چونکہ امریکہ کی قومی سلامتی کی پالیسی پر صرف اورصرف چین ہی اثرانداز ہوسکتا ہے لیکن ہم اس کا سدباب کریں گے اور جو ہمارے اس کے ساتھ ہوں گے تو ان کا بھی ہم گھیراو کریں گے۔اب ظاہری بات ہے  پاکستان مکمل طورپرامریکی کیمپ میں نہیں جاسکتا ۔ افغانستان کے ایشوپرامریکہ کو غصہ  ہے اسی طرح ایبسولیوٹلی والی بات پربھی امریکہ کو غصہ ہے۔

اس بیان کا ردعمل دیتے ہوئے عمران خان نے بھی امریکی صدرسے کچھ سوالات پوچھے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے دو سوالات ہیں امریکی صدر کس معلومات کی بنیاد پر ہماری جوہری صلاحیت پراس غیر ضروری نتیجے پرہپنچے ہیں ۔وزیراعظم رہنے کے بعد میں جانتا ہوں کہ ہماراسب سے زیادہ محفوظ جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہے امریکہ دنیا بھر میں جنگوں میں ملوث رہا ہے  پھرعمران خان نے سوال کیا کہ پاکستان نے نیوکلیئرائزیشن کے بعد کب جارحیت کا مظاہرہ کیا ۔بائیڈن کے بیان سے امپورٹڈ حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی ظاہر ہوتی ہے ۔امپورٹڈ حکومت کے امریکہ سے تعلقات کی بحالی سے متعلق دعوٰے کی قلعی کھل چکی ہے اس حکومت نے نااہلی کے تمام ریکارڈ تودئیے ہیں۔مجھے اس حکومت سے متعلق کچھ پریشانی ہے کہ یہ حکومت معاشی تباہی تو کررہی ہےکہیں یہ قومی سلامتی پرکوئی سمجھوتہ نہ کرلے۔

اب دیکھنا ہے کہ امریکی صدرکے اس بیان پرحکومت پاکستان کا کیا موقف آتا ہے کیا وہ صرف اپنے جوہری پروگرام کے محفوظ ہونے کی تسلیاں دیتی رہے گی یا آگے بڑھ کر اس بیان کے وضاحت کا مطالبہ کرکے بیان واپس لینے کا کہے گی۔یہ آنے والا وقت طے کرے گا کہ کیا ہوگا۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں