پیر، 17 اکتوبر، 2022

کپتان کی فتح کے بعد بڑے گھرکا اہم ترین فیصلہ تیار،کسی بھی وقت اعلان متوقع

 

کپتان کی فتح کے بعد بڑے گھرکا اہم ترین فیصلہ تیار،کسی بھی وقت اعلان متوقع

ملک میں ضمنی انتخابات کے بعداہم سیاسی صورتحال پیداہوچکی ہے اورملک کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے الیکشن میں کامیابی کے بعد عمران خان نے اہم ترین پریس کانفرنس میں بڑے بڑوں کو آج کیا پیغام دیا اس کی تفصیلات بھی آپ کو بتائیں گے۔ سابق وزیراعظم پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پاکستان بننے کے بعد سیاسی تاریخ میں وہ تاریخی کامیابی حاصل کی ہے ان کی راہ ہموار ہو گئی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ  عمران خان جس مقصد کے لیے عوام میں شعوراوربیداری پیدا کرنا چاہتے تھے اس میں کامیاب ہوگئے ہیں  کل کے الیکشن میں عمران خان کی تاریخی کامیابی سے اپوزیشن میں صفحہ ماتم بچھ گیا ہےاورپی ڈی ایم میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے ہر طرف گبھراہٹ ہی گبھراہٹ ہے منزل عمران خان کے قریب پہنچنے لگی ہے ۔15 نومبرسے پہلے کیا ہوگا اورکیا ہو سکتا ہے فیصلے کے گھڑیاں قریب آ چکی ہیں۔ اب حالات کی تبدیلی کو امپورٹڈ حکومت کے لیے کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔ 15 نومبر سے پہلے امپورٹڈحکومت کر
رہنا ایک بوجھ ساہوگا۔

 عمران خان نےتیرہ جماعتوں کوبدترین شکست دے کر پاکستان کی سیاست میں  ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ پورے پاکستان کی سیاست کا محور اس وقت صرف عمران خان بن کے رہ چکے ہیں چاہے ادارے ہوں یا چاہے سیاسی جماعتیں ہوں۔ ن لیگ میں چالیس سال کے تجربے کے بعد صفِ ماتم بچھ چکی ہے ۔ نون لیگ نے کہا ہے کہ ہمارا وجود خطرے میں ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی مسلم لیگ نون کی قیادت پربرہمی اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ آپ نےمیری سیاست ختم کر دی ہے آصف علی زرداری اپنا کام دکھا گئے ہیں ۔لیگ کے حصے میں شکست فاش آئی ۔  پاکستان میں اس وقت ساری جماعتوں کا ووٹ بینک 30فیصد جبکہ اکیلے عمران خان کا 70 فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے ایسے میں اس کی شکست کا تصور دیکھنے والے بھی دیوانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

کل عمران خان نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک نئی بات رقم کردی ہے سات سیٹوں میں سے چھ سیٹوں پر واضح کامیابی حاصل کر کے ریکارڈ توڑ دیاہے اور بڑے بڑےبرج الٹا دیے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان نے پانچ سیٹوں   سے الیکشن لڑااور پانچوں سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی اب 2022 میں چھ  نشستوں پر کام یابی حاصل کرکے پاکستان کے واحد لیڈر بن گئے ہیں جنہوں نے ایک وقت میں اتنی سیٹوں سے الیکشن لڑکربڑے بڑے نام نہاد سیاسی لیڈروں کوپچھاڑدیا ہے۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی ،مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی میدان چھوڑ کربھاگ گئے ۔ عمران خان کی حکومت فتح کے تمام جھنڈے گاڑتے ہوئے حکومتی اتحادیوں کے لئے پریشانی اور ماتم کا باعث بن چکے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کے جانے کے بعد ن لیگ جو کہتی تھی کہ نااہل اورنالائق ہے اس سے حکومت نہیں  چلائی جاتی ہم تجربہ کار ہیں ۔ماضی میں ن لیگ اورپیپلزپارٹی دونوں ماعتوں نے ایک دوسرے کی حکومتیں گرائیں اور لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا اورمٹھائیاں بانٹیں کیونکہ ان کی حکومتیں کرپشن پے گئی تھیں لیکن عمران خان کی حکومت جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا گراف بلندیوں کی آخری حد کو چھونے لگا جس کی مثال نہیں ملتی۔اس وقت لوگوں کو یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ مسلم لیگ نون یہ پروپیگنڈا کر رہی تھی کہ ہمیں مہنگائی کا درد ستا رہا ہے عمران خان نا تجربہ کارہے  انہوں نے آکے سوائے اپنے سنگین اربوں روپے کے مقدمات ختم کرنے کے علاوہ عوام پر مہنگائی بم گرائے لوگوں کی زندگی عذاب کر دی بجلی کا بل دینے سے لے کر ایک وقت کی روٹی بھی مشکل کر دی ۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے اداروں نے سروے کرایا عوامی سروے کیے گئے اوراسی طرح انٹرنیشنل سطح پر بھی سروے کروائے گئے تورزلٹ یہ سامنےآیا کہ ساری جماعتیں مل کے بھی عمران خان کے مقابلے میں بڑی مشکل سے تیس فیصد ہی ووٹ لے سکیں۔

 عمران خان اس وقت حکومت کے اعصاب پر سوار ہو چکا ہے رانا ثناءاللہ دھمکیوں پر آگئے ہیں کہ میں عمران خان کونہیں چھوڑوں گا اگروہ اسلام آباد آئے جبکہ اسے کوئی سمجھائےکہ رانا صاحب عوام سےنہیں لڑا جا سکتا یہ حقیقت ہے کہ تمہیں اورتمہاری پارٹی کو عبرتناک شکست ہوئی ہےاب شکست تسلیم کر لو نون لیگ کی قیادت نےعملاً تو تسلیم کر لیا ہے لیکن عمران خان نے انہیں سیاست کے قابل نہیں چھوڑا۔ کل کے ضمنی انتخابات میں عمران خان کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ ملے اور غیر جانبدار حلقے کہہ رہے ہیں اگرتمام جماعتیں الگ الگ الیکشن لڑیں گی  تو عمران خان 70 فیصد سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے اور 30 فیصد تمام جماعتیں مل کے لے سکیں گی۔ اس طرح عمران خان کی  واضح کامیابی کے راستے میں کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی ۔  کل کے نتائج کے مطابق نون لیگ کے ووٹ صرف اور صرف 13.6 فیصد رہے اوروہ بھی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کراتنے فیصد لے سکی۔ پیپلز پارٹی نے واضح برتری حاصل نہیں کی بلکہ بارہ اعشاریہ آٹھ فیصد ووٹ لیے۔

اےاین پی نے آٹھ اعشاریہ نوفیصد اورمولانا کی جماعت صرف اورصرف چھ اعشاریہ ایک فیصد ووٹ لے سکی جبکہ ایم کیوایم باربارقلا بازیوں کی وجہ سے عوام میں اپنی مقبولیت کھوچکی ہےاوراس کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابرہوکے رہ گیا ہے۔

الیکشن میں کامیابی کے بعد اب اگلا مرحلہ لانگ مارچ کا ہے عمران خان نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ مجھے شفاف انتخابات چاہیِئں احتساب کرنا ہے توصرف میری جماعت کا نہیں بلکہ سب جماعتوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا احتساب کریں جن کو این آراوٹو دے کرانہیں ریلیف دیا گیا جن میں نوازشریف ،شہبازشریف ،مریم نوازاوردیگرشامل ہیں ۔ عمران خان کی کامیابی کے بعد اورآج کی پریس کانفرنس کے بعد حکومتی ایوانوں میں موجود لوگوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں ۔ پاکستان میں حالات کس طرف جائیں گے اس کا فیصلہ 15 نومبر سے پہلے پہلے بادی النظر میں یقیناً ہوجائے گا کیونکہ عمران خان کسی بھی قیمت پراس نااہل حکومت کو ٹائم نہیں دینا چاہتے نہ ہی عوام دینا چاہتی ہے۔

آج عدالت میں پیشی کے موقع پرایک رپورٹرکی طرف سے سوال پوچھاگیا ہے کہ سننے میں آرہا ہے کہ اگرلانگ مارچ کیا گیا تو مارشل لاء لگنے کی خبریں ہیں اس کے بارے آپ کا کیا خیال ہے تو اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جمہوریت کا حسن پر امن احتجاج میں ہے کیا پاکستان میں اس سے پہلے احتجاج نہیں ہوئے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی یا مولانا ہوں ہرپارٹی نے لانگ مارچ کیے ۔ میری حکومت میں چار لانگ مارچ ہوئےجنہیں میں نے سہولتیں دیں ہم پرامن احتجاج کریں گے ۔

اب تیسری قوت کی گنجائش نہیں ہے ملک میں خطے میں پاکستان کی فوج کا اہم کردار ہے اور میری اپنی رائے کے مطابق کسی بھی صورت میں مارشل نہیں لگے گا گو کہ حکومتی اتحاد چاہتا ہے کہ مارشل لاء لگے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر عمران خان آیا تو وہ کسی بھی کرپٹ آدمی کو نہیں چھوڑے گا دوتہائی اکثریت لے کے آئے گا تو قانون سازی بھی کرے گا اورلٹیرے بھی گرفت میں آئیں گے اس لیے ان کی نیند خراب  ہوچکی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں