منگل، 25 اکتوبر، 2022

ارشد شریف کی شہادت دو کردارآشکار،جان لینے کے بعد گاڑی پرفائرنگ کا ڈرامہ رچایاگیا

 

ارشد شریف کی شہادت2کردارآشکار،جان لینے کے بعد گاڑی پرفائرنگ کا ڈرامہ رچایاگیا

ارشد شریف کی شہادت کو 36 گھنٹے سے بھی زائد کا وقت ہو چکا ہے کچھ بڑی اہم چیزیں سامنے آئی ہیں جن کا آپ تک پہنچانا بہت ضروری ہیں ۔اب تک دو بڑے اہم کردار سامنے آئے ہیں  اور ان دونوں کرداروں کا تعلق کہیں نہ کہیں پاکستان سے ہے، کیسے ؟ اس کے اندر دوشخصیات ہیں ان کے متعلق آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کون ہیں؟ ان کا کام کیا ہے؟ کس طرح سے  انہوں نےارشد شریف کو ان کے کینیا پہنچنے پرگھیرلیا اور پھراس ویران سڑک پر ان کو لے جایا گیا۔ اس کے بعد اب یہ دونوں شخصیات کہاں پہ ہیں؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اب تک ان سے کیا پوچھا ہے؟ اورکینیا کی جانب سے اب تک کیا اطلاعات آئی ہیں اوراس کیس سے متعلق عدالت  نے کیاکہا ہے اس کے بارے بھی آپ کو بتاوں گا۔

 پاکستان کا میڈیا کبھی بھی آپ کو سچ نہیں بتائے گا اس کا ایک ہی کام ہے کہ سچ کو کسی طرح چھپایاجائے اور جھوٹ کو پھیلایا جائے۔ آج  ایک عجیب سی بات سامنے آئی ارشد شریف کے دوست صحافی عامر متین نے ایک ٹویٹ کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ " سوال یہ ہے کہ اگر آپ ارشد شریف کے قتل میں کوئی ہاتھ نہیں نے تو پھرہر چینل کو فون کرکے ڈرایا کیوں جا رہا ہے کہ کیا کہنا ہےاورکیا نہیں۔ سیدھا مارشل لاء لگائیں اورہرسرکش کو ارشد شریف کی طرح مروادیں ۔ اتنے ڈرامے کی ضرورت کیا ہے؟" یہ پاکستان کے ایک نامور صحافی کی ٹویٹ ہے  جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ چل کیا رہا ہے ۔کل دردانہ نجم  نے بتایا تھا کہ ان کے اخبارکی طرف سے انکو "یہ پیغام ملا ہے کہ ارشد شریف کے حوالے سے کوئی کالم نہیں لکھ سکتے۔ نہ ہی کوئی خبراس حوالے سے موضوع بحث آئے گی ۔یہ بھی سنا ہے کہ یہ اخبارکی ادارتی پالیسی نہیں بلکہ "وہ کون تھا" کا حکم ہے۔"

آج پاکستان کا پرنٹ میڈیا بھی اس طرح کوئی کالم اورخبراس حوالے سے نہیں دیے سکا جس طرح اسے دینی چاہیے تھی لیکن اس کے مقابلے میں کینیا کے اخبارات دی سٹار،دی نیشن ،دی سٹینڈرڈ اورڈیلی نیشن نے ارشد شریف کو بھرپورکووریج دی ہے۔ان اخبارات میں ٹپ سٹوری ارشد شریف کی ہے اوروہاں کا میڈیا ان کے قتل پرسوالات اٹھا رہا ہےجو پاکستانی میڈیا کو چاہیے تھا ۔

اب ان دو کرداروں سے متعلق اطلاعات سامنے آگئی ہیں اوران شخصیات میں سے ایک شخص وہ تھا جو اس وقت گاڑی چلا رہا تھا ۔ گاڑی چلاتے ہوئے وہ زخمی ضرور ہے بہت سارے لوگ بتارہے ہیں کہ وہ سکتے میں ہے وہ بول نہیں سکتا لیکن وہ بچ گیا ہے ایسی صورتحال نہیں ہے کہ جس میں اس کی جان خطرے میں ہے۔ اس وقت یہ جودو کردار ہیں ان کو  پاکستانی میڈیا سامنے نہیں لے کر آیا۔ان کرداروں کے متعلق بتانے سے پہلے آپ کوکینیا کے ایک وکیل  احمد ناصرنامی جو کہ آئینی اورقانونی معاملات کو دیکھتے ہی انہوں نے بڑے بنیادی سوال اور بنیادی چیزیں سامنے رکھی ہیں کہ کینیا کی پولیس کنٹریکٹ کلنگ  کرتی ہے اور تیسرے ملک کے ایجنٹس کے لیے کام کیا جاتا ہے یعنی پیسے دے کر کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے ۔ترکی کا ایک چینل ٹی آر ٹی ورلڈ ہے اس کے رپورٹر علی مصطفٰی اپنی ٹویٹ میں لکھتے ہیں ان کے مطابق بنیادی طور پرارشد شریف کی شہادت کے اندردو ایسے کردار ہیں جن کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اس تحقیقات کے اندر ایک شخصیت خرم احمد ہے جو ارشد شریف کی گاڑی چلا رہے تھے اور دوسرے نمبر پر ان کے بھائی وقار احمد ہیں۔

اب سے تھوڑی دیر پہلے تحریک انصاف کے رہنما شہبازگل جن کو پہلےگرفتار بھی کیا گیا تھا انہوں نے ایک ٹویٹ کیا ہے جسے بعد میں انہوں نے ڈیلیٹ بھی کر دیا ہے۔ جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی "کینیا کے لوکل پاکستانیوں سے بات ہوئی ہے  ان کے مطابق ارشد کے  سر اور دل کے اوپر گولیاں ماری گئیں ۔ ان کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ  ارشد  کو پہلے گولیاں مارکرقتل کیا گیا پھرڈرامے بازی کے لیے  گاڑی پر فائرنگ کی گئی ، ڈرائیور  سکتے میں ہے  وہ کسی سے بات نہیں رہا،ڈرا ہوا ہے۔"

 اب ان دو کرداروں کی طرف آتے ہیں ایک خرم احمد جو گاڑی چلا رہا تھا دوسرا کردار اس کا بھائی وقار ہے ۔ حادثے کے فوراً بعد  خرم احمد نے اپنے بھائی  وقار احمد سے رابطہ کیا  خرم احمد کا بھائی وقار احمد ایموڈیم  کے نام سے ایک  کمپنی  چلاتا ہے جوملٹری کو ہتھیارسپلائی کرتی ہے۔  ابھی تک آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ یہ کوئی عام شخص نہیں ہے اس کا وہاں کی سیکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ بھی تعلق ہے تو پولیس جو وہاں پرغلط شناخت کی بات کر رہی ہے  وہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ یہ بتا رہے ہیں کہ اگر آپ پاکستان کی اور وہاں کی پولیس کا اندازہ لگائیں کہ دنیا میں کرپشن میں پاکستان کی پولیس کا تیرہواں جبکہ  کینیا کی پولیس کا دسواں نمبر ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں پے بھی پروٹوکول کلچر وی آئی پی کلچر اتنا ہی اہم ہے جس لینڈ کروزر کے اندر ارشد شریف سوار تھے عام طورپراس قسم کی گاڑیوں کوپولیس نہیں  روکتی ہے۔کیونکہ کرپٹ معاشرہ ہے اوروہاں پرایلیٹ کلچربہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ارشد شریف کو شہادت سے چند لمحے پہلے دن وقت اس جگہ کا وزٹ بھی کروایا گیا تھااوروزٹ کروانے والے یہ دونوں خرم احمد اور وقار احمد تھےاب اس وقت یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر آپ نے اصل لوگوں تک پہنچنا ہے جنہوں نے یہ سارا کھیل کھیلا ہے تو آپ کو ان دونوں شخصیات سے تفتیش کرنی پڑے گی لیکن اسٹیٹ کرنا پڑے گا۔

 آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر جسٹس اطہرمن اللہ کوبیرسٹر شعیب رزاق نے ایک درخواست دی  کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے لیکن عدالت نے فوری طورپر جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کردی اور کہا ہے کہ اس مرحلے کےاوپر کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ دوممالک کے درمیان کا معاملہ ہے۔

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں