جمعہ، 28 اکتوبر، 2022

خطرناک تقریر: ڈی جی آئی ایس آئی کان کھول کرسن لو،معاملہ آوٹ آف کنٹرول ہوگیا

 

خطرناک تقریر: ڈی جی آئی ایس آئی کان کھول کرسن لو،معاملہ آوٹ آف کنٹرول ہوگیا

عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہو چکا ہے لاہور کی عوام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں اور آج پورا پاکستان عمران خان کے بیانیے پر اور اس امپورٹڈ سرکار کے خلاف سڑکوں پر ہے یہ جو مناظرآج لاہور میں دیکھے گئے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ابھی تو لانگ  مارچ میں صرف لاہور کی عوام کے مناظر ہیں ۔آج لبرٹی چوک میں عمران خان  پہنچے جہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی  پوری قیادت موجود تھی کنٹینرسج چکا ہے اور اب یہاں پر دمادم مست قلندر کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ امپورٹڈ سرکار کی کانپیں ٹانگنا شروع ہو چکی ہیں لیکن آج جو سب سے زیادہ اہم اورالارمنگ ہے وہ  عمران خان  کی گفتگو ہے جس میں  انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو براہ راست مخاطب کیا ہے ۔

عمران خان  اس سے پہلے بھی بار ہا یہ بات کر چکے ہیں کہ پاکستان کی بقا کے لیے پاکستان کی فوج ،ایجنسیز اور پاکستان کے اہم ترین ادارے بہت زیادہ ضروری ہیں ۔عمران خان  کی یہ بات سو فیصد درست ہے اور پاکستان سے محبت کرنے والا اور اپنے سیاسی مفادات پر ملکی مفاد کو ترجیح دینے والاعمران خان کی اس بات سے اتفاق بھی کرتا ہے یہاں تک کہ عمران خان نے یہ تک کہا کہ پاکستان کے لیے عمران خان اوراس کی سیاست بھی زیادہ پاکستان کی فوج  ضروری ہے یہ بڑا اہم بیان تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات اہم بھی ہے اور یہ بات سچ بھی ہے کیونکہ ظاہری بات ہے ملک کے لیے ایک مضبوط فوج کا ہونا بہت زیادہ ضروری بھی ہے اور اہم بھی ۔

 پچھلے دو دن کے اندر بہت سی ایسی پیش رفت ہوئی ہے جس نے سارا منظر نامہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔پہلے فیصل واڈا کی پریس کانفرنس اس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس  پھر اس کے فوری بعد  پاکستان تحریک انصاف کے سینئر لیڈرشپ کی جانب سے پریس کانفرنس جو کہ  ڈی جی آئی ایس آئی اورڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے جواب میں تھی اورجس میں شاہ محمود قریشی ،اسد عمر، فواد چوہدری ،حماد اظہر اوردیگر سینئر رہنما ایک پیج پر ایک پریس کانفرنس کرتے نظر آئے۔پھر رات کو عمران خان کا انٹرویو اور آج صبح جب لانگ مارچ کا آغاز ہوا اوراعظم سواتی نے دو نام بولے ان دو ناموں پربھی عمران خان بولے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اداروں کے ساتھ ڈائریکٹ میچ پڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ لانگ مارچ امپورٹڈ سرکار  کی ہٹ دھرمی  اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ اس  سازش کے خلاف بھی ہے جس کے تحت عمران خان  کی حکومت کو گرایا گیا اب یہاں پر ایک چیز بڑی واضح ہے کہ یہ جو  عمران خان اوراداروں کے درمیان تصادم  ہوتا ہے اس میں نقصان کس کا ہے اس میں نقصان صرف اورصرف پاکستان اور ہردلعزیزرہنما عمران خان کا ہےجو کہ پاکستان کا خیرخواہ ہے اوراس میں نقصان پاکستان کے اداروں اورپاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا ہے جبکہ اس میں فائدہ ملک دشمنوں کا ہے اورملک کے اندربیٹھے ان ڈاکووں ،چوروں اورلٹیروں کا ہے جو ملک کو نوچ کے کھا جانا چاہتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس وقت ایسے میں ٹکراو کی سیاست کسی کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ورنہ خدانخواستہ بات بہت دورتک جا پہنچے گی ۔

 عمران خان نے آج لانگ مارچ کے آغاز میں ہی  ڈی جی آئی ایس آئی سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اس سے زیادہ ایسی سیاست والی پریس کانفرنس تو میں نے شیخ رشید کو بھی کرتے ہوئے نہیں سنا آپ غیرجانبدارنہیں ہیں آپ نے جو پریس کانفرنس کی کم ازکم ان چوروں کے ٹولے جو بیٹھے ہوئے ہیں ان پرآپ نے کیوں بات نہیں کی سارا نشانہ عمران خان کو کیوں بنایا۔ڈی جی آئی ایس آئی آپ نے کہا کہ میں نے غیرآئینی چیزیں کی ہیں میں کہتا ہوں کہ میں نے کوئی غیرآئیںی چیزآج تک نہیں کی میں صاف اورشفاف الیکشن چاہتا ہوں۔میرے ملک کی عوام فیصلہ کرے گی کہ اس ملک کی قیادت کون کرے گا نہ امریکہ کرے اورنہ ہی کوئی اورکرے۔عوام کو فیصلہ کرنے دو۔

 عمران خان نے اعظم سواتی کی جانب سے لیے گئے ناموں کو بھی دہرایا جس میں ایک میجر جنرل اورایک بریگیڈیئرکا نام شامل تھا ۔ایسی صورتحال کے بعد جو ایک فضااس وقت بن رہی ہے وہ نہیں بننی چاہئے ۔

عمران خان اس وقت واحد سیاسی رہنما ہیں جو پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں جو ایمان داربھی ہیں اور پاکستان کا درد رکھتے ہیں ۔پچیس مئی کو بھی عمران خان نے اداروں کے ساتھ کہیں ٹکراؤ نہ ہو جائے اس لیے اپنے سیاسی مفادات کو قربان کیاتھا ۔عمران خان کے پاس پچھلے چھ ماہ میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب ان کے پاس سے آپشن تھا کہ وہ اپنے سیاسی مفاد پر ملکی مفاد کو قربان کردیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ عمران خان کے لیے پاکستان زیادہ ضروری ہے اپنی سیاست نہیں۔ امپورٹڈ سرکار نے بہت دفعہ عمران خان کی اسےکمزوری کے طور پر سمجھا لیکن عمران خان نے پھر بھی ملکی مفاد پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا اور اس لیے کہ اس وقت ضرورت پیدا ہو چکی ہے کہ بہت سے معاملات کو جلد از جلد اور فوری طور پر حل کیا جائے تاکہ چیزیں  اس طرح کے لیول پر نہ جائیں کہ معاملات  ٹھیک بھی ہو سکیں۔

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں