اتوار، 9 اکتوبر، 2022

نیاآرمی چیف کون ہوگا؟حکومت کا جنرل باجوہ کا تجویز کردہ نام قبول کرنے سے انکار

 

نیاآرمی چیف کون ہوگا؟حکومت کا جنرل باجوہ کا تجویز کردہ نام قبول کرنے سے انکار

آج کی سب سے بڑی خبراسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے متعلق ہےچونکہ عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کو لڑانے کوشش کی گئی لیکن اس سب کے دوران ایک بڑی پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ  لڑانے والوں کا اپنا پھڈا ہو گیا ہے اوریہ پھڈا کس بات پر ہوا ہےیہ ان کے ترجمان اوران کے  اندرونی حلقےباہرلے کرآ گئے ہیں سب سے پہلی خبر کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ حکومت نے  جن اشخاص کو آرمی چیف نہیں لگانا اس پراپنی حکمت عملی طے کر لی ہے اور اس کے بعداس وقت جو بنیادی تنازعہ سامنے آرہا ہے کہ جنرل باجوہ کسی اور کو آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں اور نواز شریف نے کوئی اور نام تجویز کیاہوا ہےانہوں نے کہا ہے کہ جو ہوتا ہے ہوجائے دیکھا جائے گابس اس شخص کوآرمی چیف لگا دیں ۔

 تمام تفصیلات آپ کے سامنے رکھوں گا کہ جنرل باجوہ کس کا نام دے رہے ہیں اور نواز شریف نےکس کا نام دیا ہے جبکہ شہباز شریف کس کو آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں۔ دونوں سے ہٹ کے  آصف زرداری اس پورے منظر نامے سے غائب ہوگئے ہیں اس پورے پروسس کا پارٹ نہیں بن رہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ وہ بتاتا ہوں۔  سب سے پہلی بات یہ تھی کہ کون کون آرمی چیف بنا سکتا ہے حکومت نےاس بارے میں چند روز پہلے ایک اجلاس کیا جس میں بنیادی طور پر بتایا گیا تھا کہ سائفر اورلانگ مارچ والےمعاملے پر ہم کچھ چیزیں طے کرنا چاہتے ہیں لیکن جیونیوز کے رپورٹراعزازسید جنہوں نے اپنے وی لاگ کے دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہونے والے اجلاس خواجہ آصف نے حکومت کے اتحادیوں سے کہا ہے کہ عقل مندی یہ ہے کہ کچھ فیصلے ہم  قبل از وقت کر لیں اور اس میں انہوں نے نام تو نہیں لیا لیکن جو قبل از وقت فیصلوں کا سب سے بڑا معاملہ ہے وہ آرمی چیف کی تعیناتی کا ہے اور وہاں پے جو چیزیں طے ہوئی ہیں اس میں پہلی نمایاں چیزیہ ہے کہ یہ وہ شخصیات ہیں جن کو آرمی چیف نہیں لگانا ہے۔ باقی اب تین نام رہ گئے ہیں جن کی بنیادی طور پر دوڑ ہے لیکن حکومت کے ذہن میں اس وقت پلان یہ ہے جس طرح عمران خان ان کو بہت زیادہ سرپرائز دے رہے ہیں جیسے لانگ مارچ کی تاریخ نہیں بتا رہے ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ یہ ضمنی الیکشن کا رزلٹ آجائے اس  رزلٹ کے بعد وہ اسلام آباد جائیں گےپھر ہوسکتا ہے کہ وہ اسلام آباد جائیں ہی نہ  لیکن اس حکومت کو وہ مفلوج کردیں۔ اسی طرح حکومت کا خیال یہ ہے کہ اگر ہماری حکومت گرگئی  تو ہم کیا کریں اس سے پہلے ہہلے ہم کچھ چیزیں کر لیں جس کے لیے ہم نےیہ کچھ کیا ہے ۔

اس میں سب سے پہلا پلان یہ ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے پہلے آرمی چیف کی تعیناتی کا اعلان کردیا جائے حالانکہ خواجہ آصف نے کہا تھا کہ نواز شریف کی یہ اپروچ ہے کہ رئٹائرہونے والے چیف کو عزت کے ساتھ جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے کمانڈرز سے مل سکے اپنا وقت گزار سکے اور اس کے بعد اگروہ جانا چاہتے ہیں توبسم اللہ ضرورجائیں ۔اعزازسید کے مطابق  نوازشریف نے اپنی حکومت کو یہ سادہ سا اصول بتایا ہے کہ جوسنیارٹی کے بنیادپر پہلےنمبرپرہے اسے آرمی چیف لگا دیا جائے۔

اوروہ سینئرترین جنرل ،جنرل عاصم منیرہے۔ اس سے پہلے نوازشریف نے جتنےآرمی چیف لگائے وہ ضروری نہیں کہ سنیارٹی کی بنیاد پر لگائے ہوں وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ سینئرکو لگائیں لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ 29 تاریخ کو آرمی چیف نے عہدہ سنبھالنا ہے اور جنرل عاصم منیرجو سنیارٹی کی بنیادپرنمبرون ہیں انہوں نے ۲۷تاریخ کوریٹائر ہوجانا ہے یہ ہے نواز شریف کا نمبرجسے وہ آرمی چیف دیکھنا چاہتے ہیں۔

اب جنرل باجوہ کس کی بات کررہے ہیں اعزازسید کے دعوٰے کے مطابق جنرل باجوہ نے  حالانکہ کسی کا نام نہیں لیا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ پرسن ایکس وائی زی کو لگا دیں لیکن انہوں نے اشاروں کنایوں میں گورنمنٹ کویہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ میں اس شخص کو آرمی چیف دیکھنا چاہتا ہوں اور جب نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ نہیں عاصم منیر کو لگانا ہےتو اس کا مطلب ہے کہ جنرل باجوہ عاصم منیر کی سائیڈ پر،سنیارٹی کی بنیادپر نہیں ہیں  جس پہ حکومت خصوصاً نوازشریف جنرل باجوہ کے نام کو نامنظور کر رہے ہیں یا قبول نہیں کر رہے ہیں یا  دوسرے لفظوں میں مسترد کر رہے ہیں اب اس کے بیچ میں ایک اہم اور بات ہے کہ یہ جو دونوں نام ہیں ایک جو جنرل باجوہ چاہتے ہیں اوردوسراجو نواز شریف چاہتے ہیں شہباز شریف ان دونوں ہی نہیں چاہتے ہیں۔ شہبازشریف  تیسرا نام چاہتے ہیں جو ان کی چوائس کے مطابق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کی اندرونی لڑائی شروع ہوگئی ہے اور اسحاق ڈار نے خود سے تصدیق کر دی ہے کہ عمران خان کی جنرل باجوہ سےدو ملاقاتیں ہوئی ہیں جو ان کے اندر کا خوف ہے جو ان کی پریشانی ہے۔

اب ایک اہم کھلاڑی زرداری ہیں زرداری کا خیال یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر آپ نے ہماری بات نہ ماننی یعنی کہ ہماری مرضی کا آرمی چیف نہیں لگانا تو پھرہم سےمشاورت بھی نہ کریں تو اس وقت یہ ساری شطرنج کی بساط بچھائی جارہی ہےاس کے اندرآپ کو آصف ذرداری کہیں نظرنہیں آرہےاوروہ اپناکردار ادا کرتے بھی نظر نہیں آرہے ۔

دوسری جانب کچھ لو اورکچھ دو کی پالیسی پرعمل ہورہا ہے اور نواز شریف کو آج ٹی وی پر لانچ کیا گیا ہے اورپیمرا بھی کہیں دکھائی نہیں دیا ٹی وی چینلزنے بھی دکھایا ۔جیواورسماء نے تودکھانے کے بعد باقاعدہ ایک رونے دھونے اورپیٹنے والا بیانیہ  بنانے والی ٹرانسمیشن کی ظاہری بات ہے اب نواز شریف کو معصوم ثابت کرنا ہے ان کو مسیحا ثابت کرنا ہے لیکن کیسے مسیحا ثابت کرنا یہ کسی کو علم نہیں ہے ۔آج وہ عمران خان کے خلاف ہی بولتے رہے لیکن ایک بار بھی نہیں بتایا کہ یہ ساری جوباتیں کر رہے ہیں یہ آخر کس کے خلاف کر رہے ہیں کیونکہ نہ تو عمران خان نے ان پر پانامہ والے مقدمات بنائے اورنہ ہی عمران خان نے ان کو جیل کے اندر ڈالا تو آخر وہ یہ کس کے لیے کررہے تھے؟تحریک انصاف تو کہہ رہی کہ نوازشریف اوراسٹیبلشمنٹ کےدرمیان ڈیل ہوئی ہے جس کو این آراوٹو کہہ رہے ہیں ۔ نوازشریف کہہ رہے تھے کہ ججز سے حساب لینا پڑے گا جنہوں نے مجھے وزارت عظمٰی سے ہٹایا اورڈس کوالیفائی کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان  کا بیانیہ جرنیلوں سے ہٹ کے ججز کے اوپر چلا گیا ہےوہ آج دل سے باتیں کر رہے تھے اگرانہوں نے  دل سے باتیں کرنی تھیں تو جوگوجرانوالہ میں نام لے کے حساب مانگنے والی باتیں کی تھیں کیا وہ دل سے نہیں تھیں؟

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں