اسمبلیاں بچاتے بچاتے ن لیگ اورپی پی پی اپنے 25 ایم پی ایز سے ہاتھ
دھوبیٹھیں
آرمی چیف جنرل قمر
جاوید باجوہ کل ریٹائرڈ ہو گئے اوران کی جگہ پرجنرل عاصم منیرآگئے ۔ سب نے مبارک باد
دے دی لیکن ایک شخص خاموش تھا اور اس کا ٹوئٹر
ہینڈل خاموش تھا کوئی پیغام بھی نہیں دیا یہاں تک کہ مبارک باد بھی نہیں دی سب کہہ
رہے تھے کہ عمران خان کو کیا ہوا ہے کیا وہ خوش نہیں ہیں یاغصے میں ہیں بالآخراب
24 گھنٹے سے زائد کا وقت گزرنے کے بعد عمران خان نے خاموشی توڑتے ہوئے نئے آرمی چیف عاصم منیر کومبارکباد دی
ہے اورمبارکباد دینے تک بات نہیں رہی بلکہ ان کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ آپ کےمسائل کیا ہیں اوران کو آپ نے ٹھیک کرنا ہے
اگریہ مسائل ٹھیک نہ ہوئےتو پاکستان کے حالات آپ کے سامنےہیں۔
عمران خان نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ چیئرمین جوائنٹ
چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف کے منصب سنبھالنے پرجنرل ساحرشمشاد مرزا اور
جنرل سید عاصم منیر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں امید ہے کہ نئی عسکری قیادت ملت اورریاست
یعنی عوام اور ریاست کے درمیان گذشتہ آٹھ ماہ میں جنم لینے والے اعتماد کے فقدان کے
خاتمے کی کوشش کرے گی قوت ِریاست عوام سے ہی کشید کی جاتی ہے۔
اس ٹویٹ کے بعد ہوا کیا ہے کیونکہ آج کل بہت آئین
اورقانون کی بات کی جاتی ہے ٹویٹ کے بعد انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک بیان
یاد کروایا ہے اور کہا کہ یہ قائد اعظم نے کہا تھا اور یہی اب آپ نےکرنا ہے۔ اںہوں نے کہا کہ قائداعظم نے کہا
تھا کہ یہ بات مت بھولیےمسلح افواج لوگوں کی خدمت کے لیے ہے لوگوں کی خادم ہے اور نیشنل
پالیسیاں بنانا آپ کا کام نہیں ہے یہ ہم سویلین ہیں جو ان مسائل کو حل کریں گے آپ کا
کام صرف اور صرف ذمہ داری نبھانا ہے جو آپ کو دی جائے جس کا مطلب ہے عمران خان کہہ
رہے ہیں کہ آپ نے آئین اور قانون کے مطابق
رہنا ہے آپ کا سیاست سے تعلق نہیں ہونا چاہیے آپ کو نیوٹرل رہنا چاہیے۔
اب سیاسی معاملات کےاوپر
عمران خان نے ان کوپھنسا دیا ہے اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل ان کے گلے کی ہڈی بن گئی
ہے آپ کہیں گے وہ کیسے ؟ تو آپ کو بتاتا چلوں کہ مثال کے طور پر اگر تحریک عدم اعتماد
جمع کروائی جائے اور وہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو اگلے چھ ماہ جب تک اسمبلی کا دورختم نہیں ہوتا تب تک چودھری پرویزالہٰی کی وزارت اعلی محفوظ ہو جائے گی دوسرے نمبرپر اعتماد
کا ووٹ لینے کا کہا جاسکتا ہے لیکن اس وقت ان کو مشکل کیا ہے؟
مشکل یہ ہے کہ پنجاب
اسمبلی کے اندر ان کے کچھ ارکان ڈسپلن کی وجہ سے معطل ہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے عظمٰی بخاری اور عطاتارڑ کہہ رہے تھے کہ ہمارے ارکان کو سیاسی
مقاصد کے لیے معطل کیا جا رہا ہے۔ نون لیگ کے پاس اگرسیاسی حل ہوتا تو اب تک یہ نکال
چکے ہوتے لیکن اب انھوں نے اس وزارت اعلی کے معاملے کو عدالت لے جانے کا فیصلہ کر لیا
ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب پنجاب کی وزارت ِ اعلٰی کا معاملہ حل ہوا تھا تو سپریم کورٹ
نے فیصلہ دیا تھا۔ اب یہ سپریم کورٹ میں کھیلنا چاہتے ہیں تاکہ اس کیس میں تاخیرہو
اورجتنے دن وہاں پرکیس چلے تو ہم یہ کہیں گے کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہوئی۔ اب ن لیگ کا
پلان کیا ہے پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کے
لیے ن لیگ دونوں آپشنزکا استعمال کرنے کا سوچ رہی ہے۔ کل یکم دسمبر کو گورنربیلغ الرحمٰن
کی جانب سے وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے
کا کہا جائے گا ایک سے دو گھنٹوں کے وقفے کے ساتھ لیگی ایم پی ایز تحریک عدم اعتماد جمع کروائیں گے پارٹی قیادت کی جانب سےہدایات جاری
کر دی گئی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت جن کے ساتھ ان کا ٹکرائو ہے یعنی پی ٹی آئی
وہ ان کے سارے توڑ اپنی جیب سے نکال کے بیٹھی
ہوئی ہے۔
اب فواد چوہدری نے
اس کا حل بھی بتا دیا ہے جن آپشنزکو ن لیگ
ایک ساتھ استعمال کرنے کا پلان بنائے بیٹھی ہے ۔پنجاب تحریک انصاف نون لیگ کے ہروار
کے لیے تیار ہے دونوں صورتوں میں فوری ووٹنگ کروا کے یہ تحریکیں ناکام بنادی جائیں گی ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ۲۰
سے۲۵ ارکان ٹکٹ کے لئے رجوع کر رہے ہیں ہرحلقے
کا میرٹ پرجائزہ لیں گے۔ بیس مارچ سے قبل پنجاب میں نئے انتخابات ہو جائیں گے۔اب ن
لیگ اورپیپلزپارٹی قیادت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ وہ اسمبلی بچائیں یا پھراپنے ارکان
کوپی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے سے روکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں