اتوار، 20 نومبر، 2022

4 جنرلزکے نام سامنے آگئے،نیاچیف کون؟ کیا12جنرلزگرفتارہونگے؟

 

4  جنرلزکے نام سامنے آگئے،نیاچیف کون؟ کیا12جنرلزگرفتارہونگے؟


یہ شورمچایا گیا کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی یہ دعوٰی کرنے والے منہ میں انگلیاں دے کر بیٹھے ہیں کیوں کہ صدرعارف علوی کپتان کے ساتھ مل کر بہت بڑی چال سکتے ہیں ان کے ہوش اڑ جائیں گے رانا ثناءاللہ تو یہ دعوٰی کررہا ہے کہ آرمی چیف کا فیصلہ ہوگیا ہے نام فائنل ہوگیا ہے صرف اعلان باقی ہے ادھر بلاول زرداری صدر عارف علوی کو دھمکی دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی میں اگر آپ نے کچھ کیا اس کے ذمہ دارپھر آپ  خود ہوں۔  بلاول بھٹو کے منہ سے یہ بات سے اچھی نہیں لگی وہ وزیر خارجہ ہیں اور عارف علوی صدر اورسپریم کمانڈر ہیں کچھ خیال کریں کیا بات کر رہے ہیں۔امپورٹڈ حکومت کے ہاتھ سے گیم نکلتی جا رہی ہے اس لیے دھمکیاں دے رہی ہے ۔۲۶ نومبر کو عمران خان راولپنڈی پہنچ رہے ہیں اوراس فیصلہ کن مرحلےکو وہ خود لیڈ کرینگے ۔

 اسلام آباد میں حالات کیا ہے اس وقت تک  پولیس ،رینجرزاور ایف سی 62 کروڑ کا صرف کھانا کھا چکے ہیں اورکھا کھا کرانہیں خماری سی چڑھی ہوئی ہے اب وہ لڑ نہیں سکتے اسلام آباد کے اردگرد جو کنٹینرزلگے ہوئے ہیں ان کا کرایہ اس وقت تک ڈیرھ ارب بن چکا ہےاورلانگ مارچ توابھی بہت دور ہے یہ پیسے بھی مزید بڑھے گیں سیلاب فنڈ کیلئے دنیا انہیں پیسہ دینے کو تیارنہیں ۔زلزلہ فنڈ میں شہبازشریف کی کرپشن توسب دیکھ چکے ہیں سیلاب فنڈ میں اسحٰق ڈارنے جان بوجھ کر زیادہ فگردئیے تاکہ زیادہ مال ملے ان کی  ہیراپھیری پکڑی گئی اب معیشت ایک طرف دیوالیہ پن کی طرف جارہی ہے بیرونی قرض ادا کرنے کی تاریخ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہے اور آج کی تاریخ میں ان کے پاس پیسہ دینے کو کوئی چیز نہیں ، مارکیٹ میں بانڈ بیچنے کی کوشش کی وہ بھی کوئی نہیں لے رہا ایک طرف تویہ حال ہے اور دوسری طرف  سب سے بڑی تعیناتی جو سب کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسی ہوئی ہے اسے فائنل کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے یہ چاہتے کیا ہیں یہ کسی کوسمجھ نہیں آرہی ۔اب جو سمری جنرل باجوہ کی طرف سے براہ ِراست  صدر عارف علوی کو پہنچائی گئی ہے اوردرمیان سے  شہباز شریف کو  دودھ میں سے مکھی کی طرح سے نکال دیاگیا۔

 آرمی ایکٹ میں جوترمیم ہے اسے بھی حذف کر دیا گیا کیونکہ عمران خان نے اعلان کیا  آرمی ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور اسی وجہ سے اب لیفٹینینٹ جنرل عاصم منیر کو اس دوڑ سے باہر کیا گیا اب جونئے آرمی چیف کے چار مضبوط امیدوارہیں ان میں لیفٹینینٹ جنرل ساحرشمشادجو سندھ رجمنٹ اورضلع چکوال سے ہیں،جنرل نعمان بلوچ رجمنٹ سے اورضلع راولپنڈی سے،جنرل اظہرعباس بلوچ رجمنٹ اورکوہاٹ سے ہیں اورچوتھے جنرل فیض حمید جو کہ بلوچ رجمنٹ اورضلع چکوال سے ہیں۔اب پاک فوج یہ کوشش کررہی ہے کہ ایسا بندہ لایا جائے جوکسی پارٹی کا طرفدارنہ ہوں اورملکی مفاد کے ساتھ  کھلواڑ نہ کرےیہ بہت اچھی بات ہے۔

آرمی چیف کے لیے سارے کے سارے مضبوط پروفائل رکھنے والے امیدوارہیں بس صرف فرق یہ ہے کہ امریکی آشیرباد ہو آپ کی اپنی مضبوط لابی ہوتو کچھ بھی ہو سکتا ہے اب نیا آرمی چیف جنرل باجوہ کے لیے ضروری ہے کیونکہ 26نومبرکو عمران خان راولپنڈی میں داخل ہوں گے اور29 کو جنرل باجوہ ریٹائرہونگے تو یہ تین دن بہت اہم ہیں ۔ان تین دنوں میں عین ممکن ہے کہ نیا آرمی چیف جنرل باجوہ کو گرفتار بھی کرسکتا ہے ندیم انجم،فیصل نصیراورآئی ایس آئی کے سیکٹرکمانڈربریگیڈیئرراشد فہیم اورآئی ایس پی آرکے ترجمان ان سب  کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال 2017 میں جو فیض آباد میں دھرنا ہوا تھا اس میں سپریم کورٹ نے آرڈر دیا تھا کہ تحریک لبیک اوراس وقت کے میجرجنرل فیض حمید کا نام لے کرسپریم کورٹ نے اسپیشل کہا تھا کہ آرمی چیف تمام قسم کے سیاسی انتظامات میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کرے۔ موجودہ حالات میں تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو گولی ماری گئی اور جنرل باجوہ کی پولیٹیکل انجینئرنگ اوراس میں اہم کردارہونے کی وجہ سے نیاآرمی چیف کچھ بھی کرسکتا ہے۔ہم لوگ تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں اورنہ ہی ہمارابیانیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہے اصل میں یہ جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ تھے یہی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ تھے  مولانا فضل الرحمن ائیرفورس ا میں کس حیثیت سے جہاز سے اترتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔

 یہ سب سے بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعوٰی کرتے ہوئے نظر آتے تھے ۔ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہم تو ساری زندگی یہی سمجھتے رہےلیکن یہ تو درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کے نکلےیہ بات ہمیں اب سمجھ آئی ۔ محسن داوڑ، علی وزیر اور منظور پشتین ہم لوگ ان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھتے رہے یہ کمیٹیوں کے چیئرمین بنے ہوئے ہیں ۔نواز شریف  کو دیکھ لیں یہ کہتے تھے  کہ پاکستان کی فوج کو پنجاب پولیس بنادیں گے اتنا یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان ہیں لیکن اب وقت ان کے چہروں سے ماسک آہستہ آہستہ اتاررہا ہے یہ اسٹبلشمنٹ کے بغیر سیاست میں رہ ہی نہیں سکتے بلاول زرداری بھٹو کو دیکھ لیں کہ  نانا اور والدہ اینٹی  اسٹیبلشمنٹ جبکہ والد آصف زرداری جنہوں نے لیٹ  کے ذاتی مفاد کے لیے سب کچھ قربان کردیا۔ عدالتیں،سیاسی جماعتیں ،مذہبی جماعتیں اور میڈیا سب ہی اسٹیبلشمنٹ کے دلال ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا کبھی کسی نے ملک نہ سوچا ن لیگ انڈیا قربتیں بڑھاتی رہی مودی سے مدد مانگتے ہے انہیں اپنی شادیوں میں دعوتیں دیتے رہے کارگل کی جیتی ہوئی جنگ ہاردی ، پیپلزپارٹی فوج کے خلاف امریکہ سے مدد مانگتی رہی مولانا فضل الرحمن نے کبھی بھی فاٹا اوربلوچستان کی عوام کے حق میں آوازنہ اٹھائی دہشتگردی ہوتی رہی اورمولانا سوئےرہے اسی طرح پی ڈی ایم ہو یا پی ٹی ایم سب نے اپنے مفادات کو ملکی مفادات سے مقدم جانا یہ سب الگ الگ طریقے سے پاکستان کونقصان پہنچاتےرہے لیکن آج ایک پیج پر ہیں توملک کی سلامتی کہاں گئی ؟  ہمیں  تو مجاہد،صنف ِ آہن، الفا براوو چارلی اورعہدِوفا دکھاتے رہے خود بیلجئیم میں جزیرے اورامریکہ و برطانیہ کی نیشنلٹی لے لی۔ کوئی ایک تو خدا کا بندہ دکھا دیں یہ سارے چیف ،وہ نیول اورائیرفورس چیف اورجنرلزکدھر گئے ؟ انہوں نے تو ملک کو محفوظ بنانے کے دعوٰے کیے تھے لیکن یہ سارے ملک سے باہرچلے گئے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں