بدھ، 16 نومبر، 2022

آرمی ایکٹ سے چھیڑچھاڑ،جنرل باجوہ کی ایک طرف الوداعی ملاقاتیں،دوسری طرف نہ جانے کا فیصلہ

 

آرمی ایکٹ سے چھیڑچھاڑ،جنرل باجوہ کی ایک طرف الوداعی ملاقاتیں،دوسری طرف نہ جانے 

کا فیصلہ  

سب سے پہلے آپ کو خبردوں کہ  جنرل باجوہ صاحب کا جانے کا دل نہیں کر رہا ہے اورانہیں روکنے کے لیے عجیب وغریب قسم کا بھونڈا سسٹم کہ پورے کا پورا قانون بدل ڈالا اس وقت آرمی چیف کی تعیناتی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور یہ معاملہ اب لاہور ہائیکورٹ میں بھی پہنچ چکا ہے کہ آرٹیکل 25 کے متصادم  ہے کہ سینئر ترین افسر کو آرمی چیف لگائیں اور یہ بھی ان کی بہت بڑی گیم ہے آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں ہر ایک نے اپنی اپنی پسندکا آرمی چیف چن لیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ  کون سا آرمی چیف کس کو پسند نہیں ہے۔

 ایک طرف تو الوداعی ملاقاتیں ہو رہی ہیں کہ ہم  جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اس اہم تعیناتی کو سیاسی طور پر اتنا گھمبیر بنا دیا اب جو اس ماہ کورکمانڈرکانفرنس ہونی چاہیے تھی وہ اب شاید نہ ہو کیوں کچھ کورکمانڈرز سخت ناراض ہیں ۔ان کی حرکتوں کی وجہ سے ملکی حالات بہت زیادہ خراب ہیں اورغیرملکی ماہرین کے مطابق سول وارہونے کا بھی خطرہ ہے ۔ اس طرح کے سیاسی تناؤاور خطرناک صورتحال میں جہاں آپ کو آگ پر پانی پھینکنا چاہیےآپ کیوں تیل پھینک رہے ہیں جس طرح ایک نقطے سےمحرم سے مجرم بن جاتا ہے اسی طرح  انہوں نےبھی دو الفاظ میں ہیر پھیرکرکے پورے کا پورا آرمی ایکٹ ۱۹۵۲بدل دیا ہے  اور کسی کو کانوں کان خبربھی نہیں ہونے دی۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ سینیئر ترین بندہ آرمی چیف لگ جائے  اور وہ ساحر شمشاد کے حق میں ہے لیکن جان بوجھ کرانہوں نے انہیں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا کرسائیڈ پر کر دیا ہے اب جنرل باجوہ  اور آصف علی زرداری کی طرف سے جو نام تھا وہ محمد عامرتھا وہ جو زرداری کے اے ڈی سی تھے نواز شریف ہر صورت میں جنرل عاصم منیرپر ہاتھ رکھ کر بیٹھا ہوا ہےاب باقی دو بچ گئے ان میں ایک اظہرعباس ہیں جو ہندوستانی امورکے بڑے ماہر ہیں ان کو ہندوستان نہیں چاہتا کہ وہ آرمی چیف لگیں جبکہ دوسرے جنرل فیض حمید ہیں جو افغانی امورکے ماہر ہیں انہیں امریکہ نہیں چاہتا کہ وہ آرمی چیف بنیں۔ اب اس صورتحال میں انہوں نے یہ کھچڑی کچھ اس طرح پکا دی ہے کہ امپورٹڈ حکومت نے چارقدم آگے بڑھ کر یہ فیصلہ کرلیا کہ موجودہ آرمی چیف کو مستقل بنیادوں پر لگادیتے ہیں تاکہ اس مسئلے سے جان ہی چھوٹ جائے۔  اس کے لیے انہوں نے کیبنٹ کی ایک کمیٹی سی سی ایل ایل بنا دی جس نے انیس سو باون آرمی کے ایک ایکٹ میں دو الفاظ کا اضافہ کیا ان دوالفاظ کے ساتھ پوری گیم بدل گئی ۔ریٹینشن اینڈ ریکگنائزیشن ۔یہ کرنے کیا جارہے تھے انہوں نے اسحاق ڈار اور اسد محمود جن کااس کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ اس کمیٹی کا چیئرمین ایازصادق ہے جو کہتا ہے کہ آرمی چیف  کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ماتھے پر پسینہ آیا ہوا تھا اورجو ہندوستان میں بھی کافی مقبول ہوچکاہے، ان لوگوں نے آرمی ایکٹ میں سیکشن ۱۷۶ میں جسے کہتے ہیں "پاورٹومیک رولز"سب سیکشن اس کا ٹو آے اورکلازاے ہے اس کےتحت انہوں نے اس قانون کو پارلیمنٹ سے منظورکروانا ہے اورصدرکا آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیارختم کرنا ہے اورآرمی چیف کی تعیناتی میں وزیراعظم کو مختارکل بنانا ہے پھراس کے بعد وزیراعظم جس کو چاہے آرمی چیف تعینات کرسکے گا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں