منگل، 20 دسمبر، 2022

سپیکرپنجاب اسمبلی نے گورنر کا پلان اڑادیا،پرویزالہٰی کا مستعفی ہونے کا فیصلہ؟

 

سپیکرپنجاب اسمبلی نے گورنر کا پلان اڑادیا،پرویزالہٰی کا مستعفی ہونے کا فیصلہ؟

پی ڈی ایم جتنی مرضی کوشش کرلے فی الحال عمران خان ان کو نہیں چھوڑے گا سب سے پہلے آپ کو خبر دے دوں گا کہ کس طرح سے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے ان کی وزیر اعلی پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے جس کے بعد یہ وزیر اعلی ہاوس کو سیل کرنے لگے ہیں یہ کیا معاملہ ہے ؟

 رانا ثناء اللہ کہتے ہیں اس وقت قوم اور اداروں میں  ہر جگہ یہ اتفاق رائے ہے کہ عمران خان کا راستہ روکا جائے ۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت اکتوبر سےلے کراب تک پنجاب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہے اور ڈیبیٹ یہ تھی کہ جب پنجاب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہوتو کیا سپیکر کو یہ ہدایات دی جا سکتی ہیں یا وزیر اعلی کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ اب اس بارے میں کل گورنر پنجاب نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کیا  کہ بدھ کے روز شام چار بجے تک پنجاب کے وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں۔اب اس بارے میں اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان جو عمران خان کے علاقے سے بھی ہیں اوران کے بہت قریبی بھی ہیں انہوں نے گورنرکے اجلاس بلانے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے یہاں پر آپ کو ایک اور بات بتا دوں کہ جب اجلاس ہونا ہوتا ہے چونکہ اجلاس بلانے کے لیے کل شام چار بجے کا ٹائم دیا گیا ہے تو اس سے پہلے اسمبلی سیکرٹریٹ ایک نوٹیفیکیشن جسے ہم گزٹ نوٹیفیکیشن بولتے ہیں وہ جاری کرنا ہوتاہے اطلاعات کے مطابق ابھی تک پنجاب اسمبلی جس نے کل بڑی جلدی میں یہ تحریک عدم اعتماد کانوٹیفیکیشن وصول کر لیا تھا اس پر فی الحال گزٹ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جس کا مطلب ہےاس پرسرکاری طورکوئی کارروائی نہیں ہوئی کہ کل اجلاس بلایا جائے گا۔

 سپیکرنے کہا کہ اجلاس پہلے سے ہی جاری ہے تو ہم گورنر کی ایڈوائس پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ جبکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمداویس کے مطابق اجلاس جاری ہونے کی صورت میں اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہا جاسکتا جس کا مطلب ہے کہ گورنر نے غلط اورغیر قانونی کام کیا ہےوہ ایسا نہیں کرسکتے۔ اعتماد کا ووٹ لینے پر کیوں زور دیا جارہا ہےاعتماد کا ووٹ لینے کا مطلب ہوگا کہ پرویز الہی کو 186 کا نمبر پورا کرنا ہے اور اگر ایک نمبر بھی کم ہوا تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ اب پنجاب کے وزیر اعلٰی نہیں رہے لیکن ایک بات ضرور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی ہے کہ ہاں تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے اور وہ جاری اجلاس کے دوران بھی آ سکتی ہے لیکن ایسی صورت میں پی ڈی ایم کو 186کا نمبر پوراکرنا ہوگا۔موجودہ صورتحال کو اگرمدنظررکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ کل اس حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی اجلاس نہیں بلایا جائے گا۔اطلاعات ہیں کل اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان ایک رولنگ  دیتے ہوئے گورنر پنجاب کی اس ایڈوائس کو مسترد کردیں گے۔سپیکر کے اس اقدام کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت جائے گا لیکن عدالت جانے سے پہلے میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ آج گورنرکےساتھ ایک اجلاس ہوا ہے جس میں سالک حسین ،طارق بشیرچیمہ اورممکنہ امیدواروزیراعلٰی پنجاب ملک احمد خان شامل تھے اب رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ کل سپیکر کو ہرصورت میں اجلاس بلانا ہی بلانا ہے اور اگر اجلاس نہ بلایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب پرویز الہی پنجاب کے وزیراعلیٰ نہیں رہے ہیں اور ہم وزیر اعلی ہاوس کو گورنر کے حکم پر سیل کر دیں گے ۔ یعنی کہ ان کو بھی پتہ چلا گیا ہے کہ کل اجلاس نہیں ہونے جارہا اسی لیے تو دھمکیوں پر اترآئے ہیں ۔کیا یہ پنجاب کے وزیر اعلی کا آفس سیل کر سکتے ہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق اسپیکر جو رولنگ مسترد کرے گا پی ڈی ایم  یہ ضرورکر سکتی ہے کہ عدالت میں چلی جائے ان کا ایک مقصد پورا ہو سکتا ہے یعنی اسمبلی کی تحلیل رک سکتی ہے لیکن ان کی دوسری خواہش کہ ہم حکومت بنا لیں گے وہ کم از کم ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔

 دوسری طرف وزیراعلی پنجاب پرویزالہٰی کے متعلق کچھ خبریں آرہی ہیں کہ وہ مستعفی ہو سکتے ہیں اورخدشہ یہ ظاہرکیا جارہا ہے کہ شاید وہ اسمبلی کی تحلیل سے ایک دن پہلے22 دسمبرکواستعفٰی دے دیں گے لیکن ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ آصف علی زرداری بھی لاہورمیں موجود ہیں اورملاقاتوں پہ ملاقاتیں کررہے ہیں انہوں نے آج پھرچوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی  ہے۔یہ سمجھ رہے تھے ساری گیم ان کے ہاتھ میں ہے لیکن اسپیکر کے اقدام کے بعد ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا بلکہ گیم اب بھی عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ اب اس صورتحال کے بعد معاملہ کیا ہوگا؟

صورتحال اس نہج پرپہنچ چکی ہے کہ یہ معاملہ اب عدالت میں جائے گا یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچے گا یا لاہور ہائی کورٹ پہنچے گا تو جسٹس عمر عطا بندیال صاحب لاہور رجسٹری کے اندر موجود ہے آج ان کا دوسرا دن ہے ابھی مزید 12 دن وہ لاہور میں ہی ہیں جس کا مطلب  یہ ہوا کہ فی الحال ان کے ہاتھ کوئی چیزآتی ہوئی نظرنہیں آرہی ہے۔

ذرائع کے مطابق کل گورنر پنجاب ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کریں گے جس میں وہ کہیں گے کہ پنجاب کے اندر کوئی وزیراعلیٰ نہیں ہے اس لیے نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کروایاجائے ۔اب اس سے ہوگا یہ کہ بیوروکریسی  دفتروں کے اندر کام نہیں کرے گی اور چوہدری پرویز الہی اور کابینہ کے احکامات ماننے سے انکار کر دی گی اوروہ کہے گی کہ ہمارے پاس نوٹیفیکیشن ہے اب چونکہ یہ معاملہ متنازعہ ہو گیا ہے تو لگ ایسا ہی رہا ہے کہ اس کو عدالت ہی حل کرے گی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں