بدھ، 28 دسمبر، 2022

جنرل عاصم اِن ایکشن :ملک میں معاشی ایمرجنسی لگانے اورٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی تیاری

 

جنرل عاصم اِن ایکشن :ملک میں معاشی ایمرجنسی لگانے اورٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی تیاری

جب جنرل عاصم منیر کی بطورآرمی چیف تعیناتی ہوئی تو ن لیگ بڑی خوش تھی اورکہہ رہی تھی کہ دیکھیں ہم نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنا کرعمران خان نے بندوبست کر دیا ہے اور ہم نے اپنی من پسند تعیناتی کرلی ہے چونکہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کوہٹایا تھا اب دیکھیے گا کہ جنرل عاصم منیر آتے ہی سب سے پہلے عمران خان کا کباڑا کریں گے لیکن جوملک کا کباڑا یہ موجودہ حکومت کررہی ہےوہ سب کے سامنے ہے ۔میں آپ کو بنیادی طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کہنے کو اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اے پولیٹیکل ہیں ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن گزشتہ روز آپ جانتے ہیں کہ کور کمانڈرز کانفرنس  ہوئی جس میں ملکی معیشت اورملکی استحکام پربھی بات کی گئی لیکن اس سب کے اندرایک اور خبر سامنے آئی ہے جس کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز حکومت کا بوریا بستر گول ہونے اور ان کی رخصتی کا سامان پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔

  بڑے عرصے سے خبریں گردش کررہی تھیں کہ ملک کے اندریکنوکریٹس کا نگران سیٹ اپ آنا چاہیے جس کی مدت تقریباً اڑھائی سال تک کی ہوکا کیونکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ الیکشن میں نہ جائیں گے توبھی صورتحال خراب ہے اور الیکشن میں جائیں تو بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں اوراس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اس وقت آئی ایم ایف پیسے نہیں دے رہا اورموجودہ حکومت کے ساتھ بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا چند دن پہلے شبر زیدی نے کہا تھا کہ اس حکومت اور آئی ایم ایف  کے درمیان شدید ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے اور وہ اس حکومت سے کما ازکم بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔

 آج اسحاق ڈار نے ایک آن لائن تقریب سے خطاب کیا اورکہا کہ سیاسی گیم سکورنگ کرکے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا اس لیے آئی ایم ایف  کے پاس جانا انتہائی ضروری ہو گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ روزانہ یہ کہا جاتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کرنے والا ہےتومیں یقین دلاتا ہوںکہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اللہ نہ کرے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے لیکن موجودہ صورتحال بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔

اب اصل میں ہوا کیا ہے ؟ ہوا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھ آگئی ہیں کہ انہوں نےجو تجربہ کیا ہے وہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔آپ کو یاد ہوگا جب عمران خان کی حکومت گرنے والی تھی تو اس وقت بھی جنرل باجوہ نے کچھ ٹیکنوکریٹس کو بلایا تھا جس مفتاح اسماعیل اورشوکت ترین بھی شامل تھے ان سے پوچھا گیا تھا کہ آپ ہمیں اس کا کوئی حل بتائیں۔ اب ایک مرتبہ پھر بالکل اسی طرزکی ایک اورکوشش کی گئی ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے حفیظ شیخ ، رضا باقراورشبرزیدی کو بلایا ہےاورملکی معیشت پر بریفنگ بھی لی ہے یہ وہ تمام لوگ ہیں جو عمران خان کی حکومت میں اہم عہدوں پرتعینات رہ چکے ہیں۔ شبرزیدی جیسے لوگ کھل کے کہہ رہے کہ اس حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مجموعی طور پراس حکومت کی چھٹی ہونے والی ہے اور چھٹی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کا متبادل سوچنا شروع کر دیا ہے۔

فوج کی سوچ بچارکے بعد پی ڈی ایم میں شامل دوبڑی جماعتوں کی ٹون بھی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے شاید انہیں کچھ کچھ اندازہ ہوگیا ہے کہ حکومت ہمارے ہاتھوں سے کھسکنے کا وقت ہوا چاہتا ہے  رات کو بلاول بھٹو کی تقریرمیں بھی صاف نظر آرہا تھا کہ وہ کوس توعمران خان کو رہے تھےلیکن پیغام اسٹیبلشمنٹ کودے رہے تھے بالکل ویسا ہی آج  رانا ثناءاللہ نے کہا کہ ایک ایسےسیاست دان کوپیدا کیا گیا جوملک کے گلے پڑ گیا ہے کہنے کا مطلب  یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی اسے لائی ہے اوراسی نے ملک کواس نہج پرلاکھڑا کیا ہے ایسی باتوں سے صاف نظرآرہا ہے کہ ان کی اب ٹون بدلی ہوئی ہے۔ بجائے اس کے کہ ن لیگ کوئی ایسا کام کرتی جس سے معاشی مسئلے کا کوئی حل نکلتا انہوں نے دوسروں پرسارا ملبہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ان کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے ڈالران سے کنٹرول نہیں ہورہا مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جارہی ہے،کوئی بھِی پاکستان کو پیسہ دینے کو تیار نہیں۔ ن لیگ کی پارٹی کے سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل بھی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں اوراپنی پارٹی کی غلط پالیسیوں سے عوام کو خبردارکررہے ہیں۔ن لیگ سے اورتو کچھ ہوا نہیں انہوں نے لوگوں کی منہ چپ کروانے کی ٹھان لی ہے جس سلسلے میں ن لیگ کی مرکزی قیادت نے مفتاح اسماعیل کے خلاف انضباطی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ اگرآپ نے حکومت کی معاشی پالیسیز کے خلاف بیانات نہ روکے توپہلے آپ کو شوکاز نوٹس دیا جائے گااورپھرآپ کی پارٹی رکنیت معطل کردی جائے گی۔

اب اگر اسٹیبلشمنٹ نگران سیٹ اپ لے کر آ رہی ہے تواس کے ساتھ یہ خبریں بھی  سن رہے ہیں کہ ملک کے اندر معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا پلان بھی شامل ہے۔اس کی وجہ یہ سامنے آرہی ہے کہ آئی ایم ایف کی بھی خواہش ہے کہ ملک میں  ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنے لیکن اس سے اگلا سوال یہ ہوگا کہ آپ کتنے عرصے کے لیے ان کو لے کر آئیں گے؟ کیونکہ عام طور پر نگران سیٹ اپ 90دن کے لیے ہوتا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کہہ رہی تھی  کہ اس مدت کوسپریم کورٹ سےبڑھوا کر 180 دن تک لے جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ چیزیں اس سمت میں جانا شروع ہو گئی ہیں جہاں پہ ایک نگران سیٹ اپ جو ٹیکنوکریٹس کا ہو وہ آکران معاملات کوسنبھالے۔ یہاں تک کہ شیخ رشید کا بھی کہنا ہے کہ نگران سیٹ اپ کے اوپر سوچ بچار شروع ہوگئی ہے۔اب حکومت کہہ رہی ہے کہ قبل از وقت انتخابات معاشی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے اسی لیے تو وہ الیکشن سے بھاگنے کی کوشش  میں لگی ہوئی ہے اوردن رات سوچ رہی ہے کہ انتخابات سے بھاگنا کیسے ہے لیکن تحریک انصاف کا موقف سامنے آیا ہے۔فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹراکاونٹ پرلکھا کہ حکومت کو ہٹاکر طویل عرصے کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت بنانا ایک اورانتہائی احمقانہ سوچ ہے ملک کی بحران معاشی سےکہیں زیادہ سیاسی ہے صرف عمران خان کو روکنے کے لیے اس طرح کی سکیمیں بنانا ملک کے مفاد کو پسِ پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔واحد حل الیکشن ہے اس قسم کی ٹیکنوکریٹ حکومت کی مزاحمت کریں گے۔

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں