پیر، 5 دسمبر، 2022

کپتان کے خلاف بغاوت،"تحریک انصاف حقیقی"لانچ،سربراہ کون ؟ ممکنہ نام سامنے آگیا

 

کپتان کے خلاف بغاوت،"تحریک انصاف حقیقی"لانچ،سربراہ کون ؟ ممکنہ نام سامنے آگیا

عمران خان کوشکست دینے کے بہت سارے حربے اپنائےگئے لیکن ہربارکپتان کے مخالفین کو منہ کی کھانا پڑی ۔ اب ایک دفعہ پھرایک نیا حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن لگتا ایسا ہی ہے کہ یہ حربہ بھی ناکام ہی رہے گا اب کی بار بھی عمران خان کے ظاہرًا بہت قریب رہنے والے لوگوں کو استعمال کیا گیا ہے ۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں ایسا پاکستان پیپلز پارٹی اورایم کیوایم کے ساتھ بھی ہوچکا ہے کہ اس پارٹی کے اندر سے ایک الگ گروپ بنایا جاتا ہے کبھی ایم کیوایم حقیقی کا نام دیا جاتا ہے اورکبھی پاکستان پیپلز پارٹی پٹریاٹ کا نام رکھا جاتا ہے اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں یہاں تک کہ مسلم لیگ کے اندر سے بھی  بہت ساری مسلم لیگیں نکالنے کی کوشش کی گئی اسی طرح اب پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی باری ہے اور" تحریک انصاف حقیقی" لانچ کرنے کے لئے تمام تر انتظامات مکمل ہوچکے ہیں اور مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں جس کے بارے تحریک انصاف والے خود بھی بتاتے ہیں کہ ان کے لوگوں کو فون بھی آتے ہیں اوربہت سی آفرز بھی کی جاتی ہیں۔

 یہ سارا کام الیکشن سے پہلے پہلے ہونا ہے الیکشن اب ہوں یا بعد میں ہوں لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سے لوگ ہیں اورکون اس کو لیڈ کر رہا ہے اور اس کا بیس کیا ہے پنجاب ہےیا سندھ، خیبرپختونخواہ یا بلوچستان ہے کیونکہ بلوچستان میں بھی تو پارٹیاں لانچ کی جاتی ہیں کبھی" باپ "آجاتی ہے اور کبھی کوئی اورآجاتی ہے۔ اس بار غالب امکان یہ ہے کہ یہ پنجاب کے اندر ہورہا ہے اور پنجاب کے اندرسے یہ پارٹی بننے جارہی ہے اورتحریک انصاف کی  سربراہی  ممکنہ طور پر الیکشن سے پہلے پہلے جہانگیر خان ترین جو پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم رہنما ہیں ان کے حوالے کی جارہی ہے ۔انہیں کہا گیا ہے  کہ چونکہ آپ  پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کو جانتے ہیں اس لیے آپ پاکستان تحریک انصاف کے مختلف لوگوں کو توڑ کے لائیں ۔ظاہری بات یہ کام اکیلے نہیں ہو سکتا اس لئے باقاعدہ اسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور مالی طور پربھی جانگیرخان ترین بہت امیرہیں ، وہ ماضی میں پیسہ لگاتے رہے ہیں

اور تحریک انصاف سے ھٹ کے بھی پیسہ لگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں  یہ سلسلہ ناکام کیوں ہو رہا ہے آپ نے دیکھا کہ یہی جہانگیر خان ترین اورعلیم خان تھے جنہوں نے 17 جولائی کو الیکشن کے دوران  لوگوں کو توڑ کر گروپ بنایا اور عمران خان کی حکومت گرائی  لیکن جب فیصلہ عوام کے پاس آیا تو عمران خان نے جس کو بھی ٹکٹ دیا وہ توجیت گیا لیکن اس کے مقابلے میں جہانگیرخان ترین اورعلیم خان  جس کے ساتھ کھڑے تھے وہ کوئی نوانی ہو یا لنگڑیال ہو وہ کوئی ملتان کا سلمان نعیم ہویا  لاہور کا کوئی گجر ہو جو بھی تھا ان سب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں دومثالیں ہم  نے دیکھی ہیں جس کے اندر ایک توفیصل ووڈا کو لانچ کیا گیا دوسرے نمبر پرخرم روکھڑی کوسامنے لایا گیا لیکن وہ دونوں کرداربری طرح پِٹ گئے۔پھر 17 جولائی کے الیکشن کے نتائج آپ کے سامنے ہیں تو اس کا مطلب  ہے کہ یہ جو کوشش کی جا ر ہی  ہے تو یہ سلسلہ چل نہیں پائے گا۔

اب سے تھوڑی دیر پہلے اسٹاک ایکسچینج کے اندر آج 239 پوائنٹس کی کمی آئی لیکن یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن عمران خان کا توڑ نکالنا بہت ضروری ہے معیشت کی خیر ہے آج ایکسپریس اخبار نے لکھا شرح سود سولہ فیصد پر پہنچ گئی ہے پاکستان کے لیے قرضے واپس کرنا مشکل ہو گیا ہے لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ڈالرہرگزرتے دن کے ساتھ اوپرسے اوپرجا رہا ہے لیکن یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے مسئلہ توصرف اور صرف عمران خان ہے لیکن عمران خان بھی تو عوام کا مسئلہ ہے عوام نے انہیں آنکھوں پر بٹھایا ہوا ہے۔ آپ نے الیکشن میں تاخیرکرنی ہے آپ نے جوکچھ کرنا ہے کر لیکن  لیکن صورتحال اس سےبن نہیں رہی ہے۔

 حکومت اورتحریک انصاف کے درمیان کچھ مذاکرات ہورہے تھے اور یہ مذاکرات وہیں ہورہے تھے جہاں عمران خان نے  مینڈیٹ دیا ہوا تھا اوروہ مینڈیٹ صدرعارف علوی کو دیا ہوا تھا ۔آپ کو یاد ہوگا جب آرمی چیف کی تعیناتی ہوئی اس سے پہلے اسحٰق ڈار اورصدرعارف علوی کی ملاقات  ہوئی خواجہ صاحب کہہ رہے تھے کہ اسحٰق ڈار صدر عارف علوی کومعیشت کے بارے بریف کرنے گئے تھے  لیکن اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔آج کی تازہ ترین خبریہ ہے کہ ان مذاکرات کے اندرتعطل آگیا ہے حکومت کا خیال یہ ہے کہ شاید ہم کسی اچھی پوزیشن کے اندرآگئے ہیں اورعمران خان ہم سے الیکشن مانگ رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اسحٰق ڈار پیغام لے کے گئے تھے اس پیغام کا جواب لے کے آنا تھا اور صدر صاحب کو بتانا تھا لیکن اب خبر یہ ہے کہ حکومت مذاکرات سے فرارکے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے لیکن اس کا نقصان بھی حکومت کو ہی ہوگا  عمران خان کو نہیں ہوگا یہاں تک پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ  نےبھی حکومت سے کہا ہے کہ اگر عمران خان آپ کو مذاکرات کرنے کے بارے کہہ رہے ہیں تو آپ مہربانی کرکے مذاکرات کی پیشکش پر غور کریں ۔

دوسری جانب انہوں نے پنجاب کے اندر گورنر راج کے آپشن کو مسترد کردیا ہے اور اس کے بعد اب یہ کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں لائیں گے۔اب خبریہ سامنے آئی ہے کہ ن لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ گورنر کے ذریعے چوہدری پرویزالہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے گا اگر چوہدری پرویز الہی اعتماد کا ووٹ نہیں لے پاتے تو وہ ڈی سیٹ ہو جائیں گے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پنجاب کے اندر وزیراعلٰی  کےلیے الیکشن دوبارہ ہو گا اور ان کا خیال رہے اورانہوں نے چوہدری شجاعت حسین سے امیدیں بھی لگا لی ہیں کہ اگران کی پارٹی کے چھ ایم پی ایز ہمارے ساتھ آجائیں تو ہم اپنا وزیراعلٰی بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں