اتوار، 1 جنوری، 2023

کپتان کا کامیاب پلان: سال کے پہلے دن ہی صدرکا قلم چل گیا،حکومت کوبڑی رکاوٹ کا سامنا

 

کپتان کا کامیاب پلان: سال کے پہلے دن ہی صدرکا قلم چل گیا،حکومت کوبڑی رکاوٹ کا سامنا

صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی جوکہ ایک ایسی پوسٹ پرہیں جو اس حکومت  اور طاقتوروں کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے نہ اگلنے دیتی ہے اور نہ نگلنے دیتی ہے۔صدرعارف علوی نے موجودہ حکومت کو آج نئے سال کی مبارکباد دی ہے یوں نہیں ہے کوئی پیغام بھیجا ہے یا کوئی مٹھائی یا کیک بھیجا ہے حالانکہ آج کے دن تو پاکستان اور انڈیا کے بارڈرپر مٹھائی کا تبادلہ ہوتا ہے اس کے ساتھ کچھ فہرستوں کا تبادلہ ہوتا ہے ایک معمول کا عمل ہے جو اسی کی دہائی میں ہونے والے معاہدے کے بعد ہوتا ہے لیکن صدر عارف علوی نے آج سال کے پہلےہی دن حکومت کو پہلا جھٹکا دیا ہے۔حکومت نے ایک بڑی دونمبری کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے تھے اورحیران کن طور پر الیکشن کمیشن اورحکومت نے مل کریہ گیم اس بنیاد پرکی تھی کہ ہم نے قانون سازی کی اوریونین کونسل کی تعداد ایک سو ایک سے بڑھا کے 125 کردی ہے تو اس لیے الیکشن نہیں ہو سکتا۔

یاد رکھیں کوئی بھی قانون صرف اس وقت پاس ہوتا ہے جب اس کے اوپر صدر کے دستخط ہوجائیں اور وہ گزٹ پاکستان میں چھپ جائے۔ صدر کے دستخط کے بعد وہ باقاعدہ طور پر پاکستان کا قانون بن جاتا ہے اور اس کا نفاذ ہوتا ہے لیکن ایسا ہوا نہیں تھا اور پھرصدر کے پاس اختیار بھی ہے کہ ان کے پاس اگر کوئی قانون جاتا ہے تووہ چودہ دن کے اندر اندر اس کو واپس بھیج سکتے ہیں ۔اب ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ عدالت نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کروائیں لیکن الیکشن کمیشن نے نہیں کروائے اس کے بعد تحریک انصاف نے توہین عدالت کی درخواست دائر کردی ۔ الیکشن کمیشن اوروفاقی حکومت نے مل کے انٹراکورٹ اپیل کردی لیکن اس دوران اب صدرنے ایک ایسا کام کردیا ہے جس سےآپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ شکنجے میں پھنس گئے ہیں ۔صدر نے وہ بل بغیر دستخط کیے واپس بھیج دیا ہے اور آج صدر کے آفس سے ایک اعلامیہ جاری ہوا اور اس کے بعد بڑی تفصیل کے ساتھ صدر پاکستان نے بتایا کہ آخر یہ انہوں نے کیوں کیا ۔صدرِپاکستان نے بتایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل ۷۵ کی شق ون بی تحت اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل ۲۰۲۲ کوبغیردستخط یہ کہہ کرواپس کردیا ہے کہ اس سے بلدیاتی انتخابات میں مزید تاخیر ہوگی وفاقی حکومت کی عجلت میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں انتخابی عمل میں دوبارہ تاخیر ہوئی جو کہ جمہوریت کے لیے مثبت نہیں ہے۔

 اب اگر یہ کیس عدالت میں سماعت کیلئے مقرر ہو جاتا ہے تو عدالت  الیکشن کمیشن آف پاکستان  سےیہ پوچھے گی کہ آپ بتائیں کہ آپ نے کس قانون کے تحت یہ الیکشن ملتوی کیا تھا تو وہ کہیں گے کہ قانون سازی ہوئی تھی عدالت پوچھے گی کہ کیا صدرنے اس کے اوپردستخط کردئیے ہیں؟ تو حکومت کہے گی کہ صدرنے دستخط نہیں کیے اوربغیر دستخط کیے واپس بھیج دیا ہے تو اس کا کیا جواب ہوگا؟ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے واضح انداز میں توہین عدالت کی اور آج موقع دیکھ کے صدر عارف علوی نے چوکا لگا دیا ہے اب موجود حکومت پھنس گئی ہے اور یوں سمجھئے کہ ایک شکنجے کےاندر ہے جس کا کوئی توڑ اورجواب نہیں ہے۔  اب صدر کے خلاف تووہ کچھ کر نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ اب اس بل کو دوبارہ جوائنٹ سیشن میں لے جایا جائے گا اگرصدر کے تحفظات ہیں اورجوائنٹ سیشن کے اندر چلے بھی جائیں تو پھربھی ۱۴ دن ہیں ۔چودہ پندرہ دن  یہ سلسلہ ابھی ایسے ہی چلے گا اوریہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا۔

نئے سال کے آغاز پر ہی اسٹیبلشمنٹ مشکل میں دکھائی دے رہی ہے ۔آج اسد عمرنے حلیم عادل شیخ کے ساتھ مل کرایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ نئے آرمی چیف عاصم منیر کے ابتدائی دن ہیں یہ ابھی نہیں کہہ سکتے کہ اسٹیبلشمنٹ  کی پالیسی بدلی ہے یا نہیں لیکن کراچی میں ایم کیو کےدھڑے خود سے جمع نہیں ہو رہے  انہیں جمع کیا جا رہا ہے یہاں تک  کہ اگربات پاکستان تحریک انصاف کی ہوتی تو ہم کہتے کہ تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کو لے ایک بیانیہ بنارہی ہے لیکن دوسرے اینڈ سے کراچی ایک اور اسٹیک ہولڈر جماعت ،جماعت اسلامی ہے جس کے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان  نے واضح انداز میں بتایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر غیر سیاسی ہے تو ایم کیوایم کے دھڑوں کو کون ملا رہا ہے انہوں نے واضح انداز میں اس پر سوالات اٹھائے ہیں اور یہ کہا ہے کہ یہ اتنی آسانی سے نہیں ہو رہا یہ کیسے ممکن ہے جو کل تک  ایک دوسرے کے چہرے نہیں دیکھ سکتے تھے اورجوایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے آج اس حد تک چلے گئے ہیں کہ وہ گلے مل رہے ہیں۔

  آج ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر رکھا ہے اورکسی کو بڑی جلدی  ہے کہ کراچی میں ان کے دھڑوں کو اکٹھا کیا جائے اور عمران خان کوکسی نہ کسی طرح روکا جائے۔ حقیقت میں اس سےعمران خان کا نقصان نہیں ہوگا لیکن انہیں ابھی بھی اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ہے۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں