ہفتہ، 21 جنوری، 2023

استعفٰوں پرخوش ہونے والوں کوخوشی راس نہ آئی،کپتان کے مخالفین آپس میں لڑپڑے

 

استعفٰوں پرخوش ہونے والوں کوخوشی راس نہ آئی،کپتان کے مخالفین آپس میں لڑپڑے


پی ٹی آئی ممبران کے استعفٰوں کی منظوری کے بعد ہونا تویہ چاہیے تھا سب ٹھیک ہوجاتا اورچیزیں ٹھیک ہوجاتیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بہت بڑی گڑبڑشروع ہوگئی ہے اورجن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں ۔شہبازشریف سے کہا جارہا ہے کہ آپ ہمارے لیے شرمندگی اورافسوس کا باعث بن گئے ہیں آپ یہ کیا کر رہے ہیں جبکہ شہبازشریف جواب شکوہ دے رہے ہیں اورچیزیں ان کے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہیں۔مقتدرحلقوں نے اس حکومت کی جوسپورٹ کی تھی اب وہ اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں دراصل وہ جس کو گھوڑا سمجھ کے میدان میں لائے تھے وہ گھوڑا لنگڑانکلاہے اسی لیے تو اب انہیں اپنی سلیکشن پرافسوس اورملامت ہورہی ہے۔وہیں دوسری جانب پی ڈی ایم خصوصاً مسلم لیگ نون نے چارجنرلزاورایک جج کونشانہ بنانے کی مکمل تیاری کرلی ہے۔جس کے بعد صورتحال بہت گھمبیرہوتی جارہی ہے۔

ان کے لیے ایک خبرہے جوپی ٹی آئی کے استعفٰوں پر بہت خوش ہو رہے ہیں اوربھنگڑے ڈال رہے ہیں ان کو لگتا ہے کہ سب اچھا ہوگیا ہے ان کے لیے ایک بری خبر ہے جو مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ہمدرد صحافی حامد میرنے دی ہے وہ کہتے ہیں کہ "پی ٹی آئی استعفٰوں کی منظوری کے بعد یہ چیزتوواضح ہوگئی ہے کہ وفاقی حکومت اسپیکرقومی اسمبلی کواپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے اوراس وقت شہبازشریف قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں اور سرکاری حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔بلوچستان کی ایک پارٹی ان سے ناراض بیٹھی ہے"  تواس کا مطلب یہ ہوا کہ شہبازشریف ان حالات میں اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکتے اندازہ یہی لگایا جارہا ہے کہ وہ پارٹی بی این پی مینگل ہے کیونکہ وہ موجودہ وفاقی حکومت سے سخت ناراض ہے۔

سیاست کے ایوانوں میں بھونچال کی آمد۔۔۔چوہدری اعتزازاحسن اورچوہدری نثارکا سرپرائزتیار

اب جب رانا ثناءاللہ میٹنگ میں گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ پنجاب میں کیا کیا ہے آپ توہمیں سہارا اورآسرادے رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ہمارے ساتھ ہے پھریہ پنجاب اسمبلی کیسے تحلیل ہوگئی جس پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جناب یہ میں نے نہیں کیا بلکہ یہ ملک احمد خان  نے کیا دراصل ملک احمد خان سب ڈیل کررہے تھے اورانہیں جس طرح مقتدرحلقے بتاتے تھے وہ اسی طرح رانا ثناءاللہ کو بتادیتے تھے اب جب رانا ثناءاللہ کی کھچائی ہوئی تو انہوں نے ملک احمد خان کا نام لیا اورجب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جس طرح مجھے بتایا جاتا تھا میں تو اسی طرح کررہاتھا تو لہٰذا مزمل سہروردی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ نون لیگ سمجھتی ہے کہ نئی اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ جان بوجھ کرکیا ہےاورپنجاب کی حکومت ہٹائی ہے۔انہیں یہ لگتا ہے کہ نئی اسٹیبلشمنٹ کی کسی سطح پرعمران خان کے لیے کوئی نرم گوشہ ہے اس لیے انہوں نے نئی اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام پہنچایا اورکہا کہ آپ فیصلہ کرلیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ان کے ساتھ ہیں حالانکہ وہ تو کہہ چکے ہیں کہ ہم تونیوٹرل ہیں۔پہلی لڑائی تویہاں سے شروع ہوئی۔

دراصل مقتدرحلقوں کو عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ انہیں اب اپنے کیے پرافسوس ہے اوران کی نااہلی پرغصہ بھی ہے اسی لیے تو وہ شہبازشریف سے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے اب تک کیا کیا ہے یہ تو بتائیں معیشت آپ سےنہیں سنبھل رہی،اتحادی آپ سے ناراض ہیں،ایم پی ایز کو آپ نے کورکرنا تھا وہ آپ نہیں کرسکے توکیا سب کچھ ہم نے آپ کو کرکے دینا ہے۔ ملک قرضوں میں ڈوب چکا ہے بیرونی دنیا میں آپ نے ہماری ناک کٹوادی ہے عوام ہمیں برابھلا کہہ رہے ہیں سفارتی تعلقات کی آپ نے دھجیاں اڑادی ہیں اس طرح ان کے درمیان اب نوک جھوک شروع ہوچکی ہے ادھرمریم نواز بھی نئے بیانیے کےساتھ ملک میں فساد ڈالنے پھرآرہی ہیں۔وہ نیا بیانیہ کیا ہے وہ بیانیہ چارجنرلزاورایک جج کو نشانہ بنا کرچلایا جائے گا۔وہ چارجنرلزمیں جنرل ظہیرالاسلام ،جنرل شجاع پاشا،جنرل فیض اورجنرل باجوہ ہیں جس کا آغازہوچکا ہے کل رات کو نون لیگ کے رہنما جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ کس نے کہا کہ ہمارے پاس پچھلے نو ماہ سے حکومت ہے ہمارے پاس حکومت آئے تو ابھی ایک ماہ ہی گزرا ہے ان سے پوچھا گیا کہ ایک مہینہ کیسے؟ توان کا جواب تھا کہ ۲۹ نومبرتک تو ہمارے پاس حکومت تھی ہی نہیں اس وقت تو حکومت کوئی اورکررہا تھا ظاہری بات ہے ۲۹ نومبرکو جنرل باجوہ ریٹائر ہوئے ہیں اوران کا اشارہ جنرل باجوہ کی طرف ہی تھا۔اب ان کے اندرایک اوربات پر بھی غورکیا جارہا ہے کہ عوام کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایسا بیان دینا چاہیے کہ جنرل باجوہ پرآرٹیکل ۶ کا اطلاق کیا جائے یعنی ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ایسا کرنے سے عوام میں ہماری مقبولیت بڑھ جائے گی کیونکہ میاں نوازشریف سمجھتے ہیں کہ جب تک ہمارابیانیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا ہے تب تک ہمیں عوامی سپورٹ ملتی رہی ہے لیکن اب جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملے ہیں عوام ہم سے دورہوگئے ہیں۔


مزید خبروں اورتجزیوں کے لیے یہاں کلک کریں

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں