جمعہ، 27 جنوری، 2023

لڑائی کے پہلے راؤنڈ میں کپتان کی فتح کے بعد سکیورٹی اچانک غائب کیوں؟الیکشن کمیشن پھنس گیا

 

لڑائی کے پہلے راؤنڈ میں کپتان کی فتح کے بعد سکیورٹی اچانک غائب کیوں؟الیکشن کمیشن پھنس گیا



آپ نے سوجوتے اورسوپیازکھانے والی کہاوت تو سن رکھی ہوگی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ جب ایک کام کرتے ہیں اسے پورانہیں کرتے اوربھاگ جاتے ہیں اسی دوران دوسراکام شروع کردیتے ہیں اوراس سے بھی بھاگ جاتے ہیں ایسی صورتحال میں سوجوتے بھی کھانے پڑتے ہیں اورپھرسزاکے طورپرسوپیازبھی کھانے پڑتے ہیں یہی حال اس وقت پی ڈی ایم کے ساتھ ہورہا ہے۔انہیں ایک آپشن دی گئی کہ ملک میں الیکشن کروا لوتوانہوں نے کہا کہ  الیکشن تو ہم نےنہیں کروانا پھرانہیں کہا گیا کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ممبران کے استعفٰے منظور کرلوتو اس پربھی انہوں نے استعفٰے منظورکرنے سے انکارکیا لیکن جب عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا کہا تو کپتان کے ڈرکے مارے اچانک ہی سارے استعفٰے منظورہو گئے پہلی بار35 ،دوسری بارپھر35 اورپھرتیسری بار43 استعفٰوں کو منظورکیا گیا اس سے پہلے بھی انہوں نے گیارہ استعفٰے منظورکیے تھے ان پرضمنی الیکشن ہوگئےجس میں پی ٹی آئی نے فتح سمیٹی تھی اب گیارہ کے جو پہلے 35 استعفٰے منظورکیے گئے تھے ان میں 33 جنرل سیٹیں تھیں جبکہ 2ریزرو سیٹیں تھیں اب الیکشن کمیشن نے ان 33 جنرل سیٹوں پرضمنی الیکشن کروانے کا اعلان کردیا ہے۔ جس کے مطابق قومی اسمبلی کی 33 نشستوں کے اوپر ضمنی الیکشن 16 مارچ کوہوگا۔ پورا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔

 الیکشن کمیشن نے ضمنی الیکشن کے انعقاد کی تاریخ دے کرایک بلنڈرکردیا ہے بلنڈراس طرح کیا ہے کہ انہوں نے یہ اعتراف کرلیا ہے  کہ ملک کے اندر معاشی حالات ایسے ہیں جہاں پر الیکشن ہو سکتا ہے وگرنہ  استعفٰے منظورنہ کیے جاتے اوران ممبران کو ڈی نوٹیفائی نہ کیا جاتا اورنہ ہی ضمنی الیکشن کے انعقاد کا اعلان  ہوتا۔ اس اعلان کے بعد خیبرپختونخوا اورپنجاب میں صوبائی اسمبلیوں انتخابات  روکنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی اس سے ثابت ہوتاہے کہ  قانون یہ کہتا ہے کہ اگر کچھ سیٹیں خالی ہو جائیں تو پھر آئین اور قانون کے مطابق مقررہ دنوں کے اندر اندر ان سیٹوں کے لیے الیکشن کروانا پڑتا ہے اگر قومی  اسمبلی کی  33نشستوں پرضمنی الیکشن ہو سکتا ہے ملک کے معاشی حالات بھی ٹھیک ہے امن وامان کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تو پھر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلی کے اوپر الیکشن کیوں نہیں ہو سکتا اس طرح الیکشن کمیشن اپنا کیس ہارگیا ہے جبکہ عمران خان یہ کیس جیت چکا ہے۔دوسرا یہ چاہتے ہیں کہ کہ قومی اسمبلی کی خالی سیٹوں پرالیکشن ہوں کیونکہ  اسمبلی میں قانون سازی کے لیے دوتہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے جبکہ اسمبلی میں تو چالیس فیصد سیٹیں خالی ہو چکی ہیں ایسی صورتحال میں یہ کوئی قانون سازی نہیں کرسکیں گے اس لیے یہ قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر الیکشن کروانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب عمران خان ان 33 نشستوں پرخود امیدوارہوں گے اب ہوگا کیا عمران خان الیکشن لڑیں گےاوروہ جیت جائیں گے اورایک ہواچل پڑے گی کہ  دیکھو تحریک انصاف جیت رہی ہے اگریہ امپورٹڈ حکومت الیکشن کروانے میں تاخیربھی کرتی ہے  جو کہ فی الحال مشکل کام ہے تو یہ ایک غیر آئینی اقدام ہوگا لیکن جب بھی الیکشن ہوں گے جیت تو عمران خان کی ہی ہوگی اب کروائیں یا چند مہینوں بعد ۔ان کے لیے اب حالات ایسے بن گئے ہیں کہ پیچھے گڑھا اورآگے کھائی ہے کروائیں تو پھربھی مرتے ہیں نہ کروائیں تو پھربھی ان کا حشربراہونے والا ہے اسی لیے تو یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے21 سیاسی جماعتوں کے سربراہان  کومشاورت کرنے اورضابطہ اخلاق طے کرنے کے لیے 2 فروری کوبلایا ہےاب اس میں کیا عمران خان کو بھی بلایا گیا ہے یا انہیں بھی بلایا جائے گا یا نہیں اورکیا سکندرسلطان راجہ کے اس اجلاس میں عمران خان جائیں گے یہ کیسا منظر ہوگا کیا یہ بڑا  دلچسپ ماحول ہوگا ۔

ایک اورخبرعمران خان کی گرفتاری کے متعلق ہے آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری کے لئے انتھک کوشش کی لیکن تحریک انصاف کے سپورٹراورورکرزنے وہاں پرڈیرے ڈال دئیے اوراپنے کپتان کی کسی بھی ممکنہ گرفتاری روکنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن گئے جس طرح اسلام آباد میں بنی گالہ میں بنے تھے اوراس امپورٹڈ حکومت کو ناکام لوٹنا پڑا تھا اب کی باربھی ایسا ہی ہوا ہے۔ جب کے پی کے اورپنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تو کے پی کے پولیس کے پچاس اہلکارزمان پارک میں عمران خان کی سکیورٹی پرمامورتھے جنہیں کے پی کے میں نگران سیٹ اپ آنے کے بعد واپس بلا لیا گیا ہے اسی طرح پنجاب پولیس کی سکیورٹی بھی ہٹا لی گئی ہے اوریہاں تک کہ اسلام آبادپولیس کے وہ اہلکارجو کہ بنی گالہ میں عمران خان کی سکیورٹی کے لیے تعینات تھے ان کو بھی واپس بلالیا گیا ہے حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ عمران خان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔پی ٹی آئی رہنما شبلی فرازکا کہنا تھا کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ عمران خان کو خطرہ  کہاں سے  ہے اس کے باوجود سکیورٹی ہٹانے کا کیا مطلب ہے؟ یا پھر آپ جان بوجھ کے یہ ساری حرکتیں کر رہے ہیں اور کل ایک خبر چلی تھی کہ ایک  کلعدم تنظیم کو نامعلوم افراد کی جانب سےپیمنٹ کی گئی ہے اوراس کو یہ ٹارگٹ دیا  گیا ہے کہ عمران خان کو راستے سے ہٹانا ہے ۔ شیخ رشید نے آج کہا ہے کہ عمران خان کو دوطریقوں سے راستے سے ہٹایا جاسکتا ہے پہلا کسی  کالعدم تنظیم کو یہ ذمہ داری دی جائے گی یا انہیں زہردیا جائےگا۔ اب اس صورتحال میں سکیورٹی کا ہٹایاجانا ایک سوالیہ نشان ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں