ہفتہ، 28 جنوری، 2023

الیکشن کے انعقادپر پی ڈی ایم اختلاف کا شکار،گرفتاری کی بڑھکیں مارنے والے عمران خان سے خوفزدہ

 

الیکشن کے انعقادپر پی ڈی ایم اختلاف کا شکار،گرفتاری کی بڑھکیں مارنے والے عمران خان سے خوفزدہ



عمران خان اپنے کارڈز کھیلنے  کے بعد زمان پارک میں بیٹھے ہیں جبکہ ان کے کارکنان بہت بڑی تعداد میں  ان کے گھرکے باہرجمع ہیں لیکن وہ لوگ زمان پارک کی طرف نہیں آرہے جو عمران خاان کی گرفتاری کی بڑھکیں مارتے تھےیا جن کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ کسی طرح کپتان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جائے۔ عمران خان نے کل رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ بھائی اگر گرفتار کرنا ہے تو وارنٹ گرفتاری لے کر آ جاؤ اوردن کے اجالے میں آو،رات کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے کی کیا منطق ہے۔اب عمران خان نے اپنے کارڈزکھیل دئیے اوراسمبلیاں تحلیل کردیں تو لوگوں نے کہا کہ دیکھو جی عمران خان نے  اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے اور عمران خان نے اپنی حکومت قربان کرکے غلطی کی ہے پی ٹی آئی کے ارکان کی گرفتاریاں شروع ہوچکی ہیں اورپی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔دراصل  لوگ گبھراجاتے ہیں لیکن عمران کی سیاست کو نہیں سمجھ پاتے اصل میں عمران خان پی ڈی ایم سے دس قدم آگے چلتے ہیں۔

 الیکشن کے حوالے سے پی ڈی ایم میں اختلافات ہیں  پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے  لیکن مسلم لیگ نون دوگروپس میں تقسیم ہے ایک گروپ فوری الیکشن چاہتا ہے جبکہ دوسرا گروپ الیکشن کی تاخیرپربضد ہے اسی طرح ق لیگ بھی الیکشن نہیں چاہ رہی ہے چاہتی تھی اتفاق رائے کے لیے تین نشستیں ہوئی ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا اب رات کو چوتھی نشست ہوئی ہے جس میں مولانا فضل الرحمٰن شہبازشریف سے ملے ہیں اس ملاقات میں ضمنی الیکشن کے حوالے سے بھی بات ہوئی ۔مولانا فضل الرحمٰن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پی ڈی ایم اس الیکشن میں حصہ نہیں لے گی ۔مولانا فضل الرحمٰن اورن لیگ تو الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہتی لیکن ایم کیوایم نے حصہ لینے کا اعلان کررکھا ہے۔

 اب پاکستان پیپلزپارٹی بھی کہہ رہی ہے کہ میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے اس لیے پاکستان پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کے اس ضمنی الیکشن میں حصہ لے گی۔ اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ پی ڈی ایم شامل تمام جماعتیں ایک پیج پرنہیں ہیں بلکہ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ  پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے انتخابات سے زرداری کو کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ  پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تواس کی حکومت بننی نہیں ہے لیکن قومی اسمبلی کے میدان کو وہ خالی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ پی ڈی ایم کے اپنے اختلافات ہیں اورلگ یہ رہا ہے کہ یہ اپنے ہی وزن سے گرنے والے ہیں اب عمران خان کو گرفتار کرنے پران کا اتفاق ہوسکتا ہے یا نہیں ہو سکتا  مسلم لیگ نون کے کے رہنما شاہد خاقان عباسی جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ وہ ن لیگ چھوڑچکے ہیں ان کا فواد چوہدری،شہبازگل اوراعظم سواتی کی گرفتاری پرکہنا تھا کہ میں ان گرفتاریوں کی حمایت نہیں کرتا ہوں اورثبوت کے بغیرگرفتاریوں کی روایت نہیں ہونی چاہیے۔ دوسراکل گورنرکے پی کے نے کہا تھا کہ انہیں ۹۰ دن میں الیکشن ہوتے ہوئے نظرنہیں آرہے لیکن آج شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ گورنرکے پی کے کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کہیں کہ الیکشن میں تاخیرہوگی ۔

آئین کے مطابق 90روزمیں الیکشن ہونے چاہیے اور ہوں گے انتخابات نہ ہونے کا کہنا ہے کہ آئین کی نفی ہے اور ان کے مطابق کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اکتوبر میں قومی اسمبلی کے لیےعام انتخابات نہ ہوں ان کے مطابق الیکشن کا خرچ اتنا بڑا نہیں ہے کہ معیشت پر اثر پڑے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ قومی اسمبلی کے لیے یہ جو ضمنی الیکشن ہورہے ہیں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

 دوسری جانب رات کو پاکستان کو اس نہج پرلانے والے اورعوام کو ناکوں چنے چبوانے والے اسحٰق ڈارعمران خان کو مناظرے کا چیلنج دے رہے تھے جس کے جواب میں شوکت ترین نے کہا ہے آپ عمران خان سے نہیں میرے ساتھ مناظرہ کرلیں۔ شوکت ترین نے بتایا ہے کہ حکومت بجلی کا یونٹ پچاس روپے تک لے کر جائے گی اور اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا اس پر آپ کہیں گے کہ تحریک انصاف کے ارکان تو یہی کہیں گے کیونکہ انہوں نے الیکشن لڑنا لیکن مسلم لیگ ن کے ایک رہنما محمد زبیر جو کہ اسد عمرکے بھائی ہیں ان کے مطابق اسحاق ڈار کی کارکردگی سے پارٹی مطمئن نہیں ہے پارٹی اس سے مطمئن کیوں نہیں ہے اس کے بارے آپ کو بتادیتا ہوں ایکپریس کی  خبر کے مطابق دالوں کا ذخیرہ صرف 15 دن کا باقی رہ گیا ہے اور کراچی کی ہول سیل مارکیٹ نے خطرے کی گھنٹی بجادی اگر پورٹ پر موجود دالوں کو فوری کلئیرنس نہ ملی تو ملک میں دالوں کی قیمت بڑھ جائے گی اور دالوں کی قلت پیدا ہو جائے گی جس کے بعد صورت حال بہت خراب ہو جائے گی ۔

ایک خبرکے مطابق یورپ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ملازمین کو چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو تنخواہیں ڈالروں میں بھیجنی پڑتی ہیں اورملک میں ڈالروں کی شدید قلت ہے یہاں تک کہ ان کے پاس یوٹیلٹی بلز اداکرنے کےبھی پیسے نہیں ہیں۔سفارتخانوں کے ملازمین اپنے دوستوں رشتہ داروں کے ہاں رہنے پرمجبورہیں۔ جبکہ یہاں پر مولانا فضل الرحمٰن کو  زرداری کے پاس بھیجا جارہا ہے کہ وہ ان کو قائل کریں کہ وہ بھی الیکشن میں حصہ نہ لیں  اوراسی طرح عمران خان کو کس طرح نااہل کرنا ہے انہیں کس طرح گرفتارکرنا ہے پوری پی ڈی ایم اس کے پیچھے لگی ہوئی اگرمیرا خیال پوچھیں تو رجیم چینج میں شامل تمام کرداروں پرآرٹیکل ۶ لگا کرڈی چوک پرپھانسی دی جائے تو یہ بھی کم ہے جس طرح انہوں نے ملک کا ستیاناس کردیا ہے اورعوام کو بھوک پرمرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے چاہے آپ لوگ مجھ سے اتفاق نہ بھی کریں لیکن آپ کا ضمیر بالکل ایسا کرنے کا ضرورکہہ رہا ہوگا۔پچھلے دو دنوں میں جو پاکستانی روپے کا جو حال ہوا اورجو ڈالرنے اڑان بھری ہے اس پرعاصمہ شیرازی جیسی بکاو صحافی کہہ رہی ہے کہ ڈالرصرف 25 روپے اوپرگیا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ نے بہت اچھا جواب دیا ہے۔یہ ہوتی ہے ذرد صحافت اورایسے ہوتے ہیں لفافہ ضمیرفروش اورمطلب پرست صحافی جو خراب چیزوں کو بھی اچھا بنا کرپیش کردیتے ہیں حالانکہ کل اسٹاک مارکیٹ میں کاروبارمیں منفی رجحان پایا گیا تھا تین سوچھیانوے پوائنٹس گرنے کے بعد چالیس ہزارچارسوچارپوائنٹس پربند ہوا اورمارکیٹ کیپٹلائزیشن 62ارب روپے کم ہوئی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں