پیر، 30 جنوری، 2023

لاہورہائی کورٹ کا کھڑاک،الیکشن ۹۰ دن کے اندر،مہنگائی کا طوفان آنے کوتیار،پٹرول مزید مہنگا ہوگا

 

لاہورہائی کورٹ کا کھڑاک،الیکشن 90 دن کے اندر،مہنگائی کا طوفان آنے کوتیار،پٹرول مزید مہنگا ہوگا

جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ 35 روپے کا پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور یہ ہمارے ملک کے اندر اندھیر نگری چوپٹ راج ہے جسے آپ رٹ آف اسٹیٹ کہتے ہیں  وہ اس وقت ملک میں موجود نہیں ہے اس وقت ہر چیز اپنی مرضی سےہورہی ہے ڈالرہے تو وہ اپنی مرضی سے اوپر نیچے جا رہا ہے  پٹرول کی قیمت میں اچانک ۳۵ روپے کا ناقابل برداشت اضافہ کردیا گیا ہےجس سے عوام ایک دفعہ تو تلملا اٹھی ہے۔ یہ سب کچھ صرف آئی ایم ایف کے کہنے پرکیا گیا کل یعنی منگل کو آئی ایم ایف کا ایک مشن پاکستان کا دورہ کرے گا۔دورے سے عین قبل حکومت نے پٹرول کی قیمت بڑھا دی ہے  لیکن یہ معاملہ یہاں پرنہیں رکے گا بلکہ  پٹرول کی قیمت میں ابھی مزید اضافہ کرنا پڑے گا یہ تو صرف ٹریلر تھا  آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے لیے ایسا کرنا ہوگا۔ اسی طرح ڈالرکی قیمت دوسوسترتک پہنچ چکی ہے جس کا اثرعام چیزوں پرابھی آنا ہے۔

آئی ایم ایف کے دورے سے پہلے ہی حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے دو سو سے چھ سوارب روپے تک کے اضافی ٹیکس لگانے کی تیاری کرلی ہے اورکہا جارہا ہے کہ ڈیفالٹ سے ملک کوبچانے کے لئے ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے حالانکہ پہلے یہی لوگ کہتے تھے کہ ملک کو کسی بھی ڈیفالٹ کا سامنا نہیں ہے اب ملک کودیوالیہ کرکے کہتے ہیں کہ ہم تو اسے ڈیفالٹ سے بچارہے ہیں اوروہ صحافی جو عمران خان کے دورِ حکومت میں ایک روپیہ بڑھتا تھا تو وہ آسمان سرپراٹھا لیتے تھے آج اپنے ضمیروں کو بیچ کرسدھ پڑے ہیں اوراپنے بلوں سے نکل کر عوام کا دکھ اوردرد دیکھنے سے عاری ہیں۔

اگرالیکشن کے حوالے سے بات کریں تو عمران خان نے قومی اسمبلی کی ۳۳ نششتوں خود الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے جس سے پی ڈی ایم کی ٹانگیں کانپنا شروع ہوچکی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے سینیٹر عرفان صدیقی نےعمران خان کے ان حلقوں پرالیکشن لڑنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسے  آئین ،قانون اور جمہوریت کے ساتھ مذاق کہا ہے ان کا کہنا تھا کہ  ایک حلقے کے انتخاب پر چار کروڑ روپے خرچ ہوتا ہے دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اس طرح کے تماشے نہیں ہوتے۔لیکن آپ دیکھیں یہ تماشا کون کررہا ہے کیا یہ امپورٹڈ حکومت اورالیکشن کمیشن نہیں ہے جس نے  پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے اسمبلیوں کے انتخابات نہ کروانے کی قسم کھارکھی ہے اور قومی اسمبلی کی خالی نششتوں پراعلان کربھی دیا ہے حالانکہ قومی اسمبلی کی یہ سیٹیں تو پنجاب اورکےپی کے کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعدخالی ہوئی ہیں اورپی ٹی آئی کے ارکان کے  استعفے پہلےمنظور ہوئےتھے جس پر قومی اسمبلی کی سیٹوں پرالیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کردیا ہے لیکن ان دواسمبلیوں کا تاحال شیڈول جاری نہیں کیا جاسکا۔

دوسری جانب  لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست کو سماعت کے لیے مقررکرلیا ہے۔  لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جوادحسن نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ لینے کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر پیش ہوئے جبکہ پارٹی رہنما اسد عمر بھی موجود تھے ۔ پی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد گورنر کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے اس پر عدالت نے کہا  کہ آپ کی درخواست ہے کہ گورنرکوالیکشن  کی تاریخ لینے کے لیے ہدایات جاری کی جائیں الیکشن ۹۰ دن میں ہی ہونے چاہیے سب سے پہلے آپ نے اس میں الیکشن کمیشن کو فریق بنانا ہے۔عدالت نےسوال کیا کہ کیا آپ نے گورنر کو اس سلسلے میں خط لکھاجس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ گورنر کو اپنے آئینی فرائض پورے کرنے ہیں اس پر انہوں نے کہا کہ ہم ڈھونڈ لیں گے کہ الیکشن کس نے کروانے ہیں اور کس کا اس میں عمل دخل ہے۔ اس طرح اس کیس کا سماعت کیلئے مقرر ہونا بڑی پیش رفت ہے۔

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں