بدھ، 4 جنوری، 2023

آرمی چیف اورعمران خان کی ملاقات کا شیڈول طے،وزیراعظم کو آگاہ کردیا گیا

 

آرمی چیف اورعمران خان کی ملاقات کا شیڈول طے،وزیراعظم کو آگاہ کردیا گیا

پچھلے لمبے عرصے سے ایسی خبریں سامنے آتی رہی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ بھی یقیناً اس نتیجے پر پہنچے ہونگے کہ یہ نواراکشتی کی لڑائی ہے جوجاری وساری ہے اورحکومت کے مزے لوٹنے والوں کو عوام کا ذرا بھی خیال نہیں ہےتیرہ جماعتوں کا اتحاد  ایک ایماندارشخص کی حکومت کو گرانےمیں توکامیاب ہوگیا لیکن اس کے حوصلے کے  سامنے کوئی بھی ٹِک نہ پایا۔کبھی اس کے خلاف کیسزبنائے گئے کبھی اس کے ساتھیوں پرمن گھڑت کیسز بناکر انہیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا لیکن اس کے پاوں میں لغزش نہ آئی۔روزبروز ایسی خبریں چلتی رہیں جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔ لیکن ایک طویل عرصے کے بعد ایک اچھی خبر کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کے مطابق عمران خان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے درمیان ایک ملاقات ہونے کی خبر سامنے آ رہی ہے جس کا شیڈیول بھی جاری کردیا گیا ہے اورباقاعدہ طورپر وزیراعظم آفس کوآگاہ کر دیا گیا ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ یہ ملاقات بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوسکتی ہےاس بارے میں شہبازشریف کوبھی آگاہ کر دیا گیا ہے دعٰوی کے مطابق یہ ملاقات بہت جلد ہوسکتی ہے  یہ دعویٰ کون کر رہا ہے اس ملاقات میں کیا چیزیں طے ہونگی اورسب سے بڑا سوال یہ  کہ کیا برف پگھل گئی ہےکیا عمران خان کے خلاف جاری کمپین بند ہو جائے گی اس پربحث کرنے سے پہلےآپ دیکھیں کہ اگر ہائی لیول پر کچھ اچھا ہونے لگا ہے توپی ڈی ایم کی صفوں میں بھی بے چینی  نظر آرہی ہے اور گڑبڑدکھائی دینے لگی ہے چاہے وہ ایم کیوایم سے ملنے سے انکار ہو یا چاہےپیپلز پارٹی کے اچانک  سے پنجاب میں ن لیگ کے خلاف بیانات ہوں  چاہے باپ پارٹی کو توڑنا ہو ایک دم سے چیزیں الٹ پلٹ شروع ہوتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔

 عمران میرایک صحافی ہیں اور آج کل پی این این کے ڈائریکٹر نیوزہیں بڑے پرانے صحافی ہیں اور ان کی زیادہ تر خبریں درست ہوتی ہیں انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ "عمران خان کی  نئے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار،صدر عارف علوی کردار ادا کریں گے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے چلنے کی خواہش۔ پیغام چیف کو بھجوایا گیا جس پرچیف نے ملاقات کے لیے وزیراعظم کوآگاہ کر کے ان سے اجازت مانگی لی" کیونکہ عمران میر کا جھکاو تھوڑا سا نون لیگ کی طرف ہوتا ہے اس لیے انہوں نے خبر کو تھوڑا سا موڑا  ہے کہ عمران خان نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اورچیف نے وزیراعظم سے اجازت مانگ لی ہے حالانکہ اصل خبریہ ہے کہ چیف اور عمران خان کے درمیان ملاقات ہونے جارہی ہے جس کے لیے صدر کردار ادا کر رہے ہیں۔

شاید آپ کی نظرجیونیوز کی ایک خبرپرپڑی ہوگی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون نے ایم کیو ایم سے ملنے سے انکار کر دیا ہے دراصل ایم کیوایم یہ چاہتی تھی کہ مسلم لیگ ن ان کے ساتھ مل کرپیپلزپارٹی کے خلاف دھرنے میں شریک ہوں جیسے جماعت اسلامی شریک ہے لیکن ن لیگ نے پتلی گلی سے نکلنے میں ہی عافیت جانی حالانکہ ن لیگ پیپلزپارٹی کی گارنٹر تھی۔  ایم کیو ایم نے حکومت چھوڑنے کا بھی عندیہ دیا ہے حالانکہ وہ حکومت نہیں چھوڑے گی لیکن آپ ان کی بے چینی کو ان کی حرکات وسکنات سےمحسوس کرسکتے ہیں۔

پیپلزپارٹی جو بھٹوکے دورمیں پورے پاکستان کی پارٹی تھی لیکن سکڑتے سکڑتے اب صرف سندھ تک محدود ہوکررہ گئی ہے لیکن کچھ جیالے آج بھی پنجاب میں اس کے موجود ہیں جن میں ایک اہم ترین نام سید حسن مرتضٰی کا ہے جو چنیوٹ سے تعلق رکھتے ہیں اورپیپلزپارٹی کے سب سے زیادہ متحرک کارکن ہیں اورپنجاب سے پی پی کے ایم پی اے بھی ہیں اوراگرپنجاب سے پی پی کاکوئی وزیراعلٰی ہوتا توشاید حسن مرتضٰی سے اچھا کارکن پنجاب سے پی پی کو نہ ملتا۔ انہوں نے ن لیگ کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ گھرکی جماعت ہے انہیں باہر سے نہ تو وزیراعلٰی ملتا ہے اورنہ ہی وزیراعظم ۔اقتدارسے اتریں توملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح باپ پارٹی سے دو قومی اسمبلی ممبران اورچارسینیٹرٹوٹ کرپیپلزپارٹی کی طرف جارہے ہیں اسی طرح حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اتحاد کی بجائے اس چیزپرفوکس کررہی ہیں کہ بچنا کیسے ہے اوراپنی جماعت کو کیسے بچایا جائے۔ وہ جواوپرتھرتھلی ہے وہ نیچے تک محسوس کی جارہی ہے۔پیپلزپارٹی ن لیگ کے خلاف ن لیگ پی پی کے خلاف اسی طرح پی پی ایم کیوایم کے خلاف اورایم کیوایم پی پی کے خلاف دھرنا اگرانہیں اب کوئی جوڑنے والا نہیں جوڑتا تو یہ قدرتی اتحاد ٹوٹنے کے بہت زیادہ نزدیک ہے۔

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں